• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر عمران خان کے فائز ہونے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پیغام تہنیت اور خوشگوار پاک بھارت تعلقات کی خواہش کے اظہار کی حقیقت چند دنوں ہی میں بے نقاب ہوگئی ہے۔ پچھلے چند روز میں بھارت کے روایتی پاکستان دشمن طرزعمل کا ایک مظاہرہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کو تمام باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی دعوت پر مبنی خط کے جواب میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات پر آمادگی کی صورت میں دیے جانے کے دوسرے ہی دن اس ملاقات کو بے بنیاد الزامات کے بہانے انتہائی بھونڈے انداز میں منسوخ کرنے کی شکل میں ہوا جبکہ اس کے فوراً بعد بھارتی آرمی چیف جنرل بپن روات نے پاکستان کو جارحیت کی کھلی دھمکیاں دے کر خطے میں کشیدگی کو حتی الامکان آخری حدوں پر پہنچانے کی مکروہ کوشش کی۔اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے اور اسے بھی وہی درد محسوس کرایا جائے جو ہم جھیل رہے ہیں۔‘‘ بھارتی آرمی چیف کا یہ اظہار خیال وزرائے خارجہ ملاقات کی منسوخی پر وزیر اعظم پاکستان کے اس بیان کے فوراً بعد منظر عام پر آیا جس میںانہوں نے بھارتی رویے کو متکبرانہ اور منفی قرار دیا تھا۔ جنرل روات کی دھمکیوں کا نہایت مسکت جواب افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں دیا۔ انہوں نے ناقابل تردید واقعاتی حقائق کی روشنی میں بھارتی الزامات کا بے بنیاد ہونا واضح کیا اوراس امر کی صراحت کی کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے،اس پر جنگ مسلط کی گئی تو جارح قوت کو ناقابل فراموش سبق سکھایا جائے گالیکن پاکستانی قوم کا اپنا انتخاب امن کا راستہ ہے اور وہ کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتی۔ بھارت کو اسی لیے مذاکرات کی پیش کش کی گئی تھی لیکن اس نے ماحول کو مزید کشیدہ بنانے کی راہ اختیار کرکے پوری دنیا پراپنی امن دشمنی ایک بار پھر عیاں کردی ۔ بامقصد مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت کے جواب میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کا خطے میں کشیدگی بڑھانے اور جنگ کی سی فضا پیدا کرنے کی کوششوں پر مبنی یہ نفرت انگیز رویہ ان لوگوں کے لیے قطعی حیرت انگیز نہیں جو سات دہائیوں پر مشتمل پاک بھارت تعلقات کی تاریخ پر نگاہ رکھتے ہیں۔کشمیر پر بھارت کے تسلط کا غاصبانہ اور ناجائز ہونا ایک کھلی حقیقت ہے ۔ بھارت کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کا خود اپنی یقین دہانیوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روسے پابند ہے۔ مذاکرات کی میز پر اس کے لیے کشمیر پر اپنے تسلط کا کسی قابل قبول دلیل کی بنیاد پر دفاع ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مدت سے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تمام اختلافات کے منصفانہ تصفیے کی سراسرمعقول پیش کش کے جواب میں بے بنیاد الزام تراشی کی مہم چلاکر فرار کی راہ اختیار کرتا اور خطے میں کشیدگی بڑھانے کی ہرممکن کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عموماً اس رویے کا اعادہ کیا جاتا ہے تاکہ عالمی برادری کو یہ باور کرایا جائے کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا ذمہ دار بھارت نہیں پاکستان ہے اور اس کی شرپسندی کی وجہ سے باہمی تنازعات کا بات چیت کے ذریعے حل تلاش کیا جانا ممکن نہیں۔بھارتی آرمی چیف کی تازہ گیدڑ بھبکیوں کا سبب بھی یہی ہے لیکن پاکستانی حکومت اورعوام کو ان دھمکیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہیے کیونکہ کشمیرمیں بھارتی مظالم اور وزیر اعظم مودی کو درپیش کرپشن کے الزامات سے توجہ ہٹانے کے لیے نئی دہلی کی جانب سے کسی بھی ہتھکنڈے کا استعمال کیا جانا بعید از قیاس نہیں۔سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کے ممکنہ نتائج و عواقب کا جائزہ لینے کیلئے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے جو بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے اور اس پر بلاتاخیر غور کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین