• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے کے دوران سپریم کورٹ نے فیڈرل شریعت کورٹ کے ملک بھر کے اسکولوں میں عربی زبان کو لازمی طور پر پڑھانے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے پنجاب حکومت کی طرف سے شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر یہ حکم جاری کیا۔ اس فیصلہ کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں لیکن اخباری رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے اپنی اپیل میں اس بات پر زور دیا کہ عربی کو لازم مضمون کے طور پر پڑھانا ضروری نہیں کیونکہ قرآن و حدیث اور فقہ اردو اور انگریزی ترجمہ میں بھی موجود ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس اپیل میں یہ بھی کہا کہ اسلام کا اصل مقصد اسلامی اصولوں کو انسانوں تک پہنچانا تھا نہ کہ عربی پڑھانا۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے اس اپیل میں یہ بات بھی کی کہ عربی اسلام کی نہیں بلکہ عربوں کی زبان ہے۔ ایک طرف مجھے پنجاب حکومت کی اپیل پڑھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ افسوس ہوا تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلہ نے دکھی کیا۔ انگریزی زبان لازم کر دو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن اعتراض عربی زبان پڑھانے پر ہے جو قرآن و حدیث کی زبان ہے۔ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ (مفہوم) نجانے سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی اپیل کیسے منظور کر لی جبکہ آئین پاکستان بھی انگریزی یا کوئی دوسری زبان پڑھانے کی بات نہیں کرتا بلکہ شق 31(2)(a) میں ریاست اور ریاستی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کے لئے سہولت بہم پہنچائی جائے۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر کچھ تحفظات ہیں جس کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔ نجانے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے متعلق پڑھ کر مجھے عدالت عظمیٰ کا 2017 کا شراب پر پابندی کے متعلق فیصلہ کیوں یاد آ گیا جب سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے صوبہ سندھ میں شراب کی فروخت پر پابندی اور شراب خانوں کی بندش کے حکم کو معطل کر دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو اسٹے کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب قانون موجود ہے تو ہائی کورٹ ایسا حکم نہیں دے سکتی۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ شراب کی فروخت کے قانون کی خلاف ورزی پر پولیس کارروائی کر سکتی ہے لیکن پولیس اور حکومتیں تو شراب پینے والوں کا تحفظ کرتی ہیں اور اس بات کا اندازہ تو اب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو بھی ہو چکا۔ حال ہی میں چیف جسٹس صاحب نے کراچی کے ایک اسپتال میں علاج کے لیے لائے گئے ملزم اور سیاست دان شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں پکڑیں جنہیں بعد میں شہد اور زیتون کا تیل بنا کر پیش کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ پاکستان میں شراب کی فروخت پر پابندی کے لیے عدالتی جنگ اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار لڑ رہے تھے‘ جن کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب میں شراب پر پابندی ہے جبکہ سندھ بھر میں ایسے شراب خانے موجود ہیں جو مساجد، مندروں اور گرجا گھروں کے قریب ہیں۔ اُن کا یہ بھی رونا تھا کہ شراب ہندوئوں اور دوسری اقلیتوں کے نام پر بیچی جاتی ہے جبکہ پینے والوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ آج دوبارہ جب میری ڈاکٹر رمیش کمار سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی سپریم کورٹ سے درخواست کر چکے ہیں کہ اُن کا کیس سنا جائے اور شراب پر پابندی لگائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رمیش نے بتایا کہ اُن کا ایک آئینی ترمیمی بل بھی ایک دو روز میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کے ذریعے وہ اقلیتوں اور ہندوئوں کے نام پر شراب کی فروخت پر پابندی چاہتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ایک اقلیتی ممبر پاکستان میں شراب پر پابندی کی تحریک چلا رہا ہے لیکن اُس کا ساتھ دینے والے کوئی نہیں۔ اگرچہ شراب پاکستان بھر میں پینے والوں کے لیے وافر مقدار میں دستیاب ہے لیکن صوبہ سندھ میں یہ کاروبار سب سے زیادہ عام ہے جس کے لیے اقلیتوں کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔

آج کے اخبارمیں شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق سودی نظام کے خاتمہ کے متعلق کیس کی شرعی عدالت کل سماعت کرے گی۔ ایسی خبریں کبھی کبھار پڑھنے کو مل جاتی ہیں لیکن اس کیس کا 1992اور پھر 2000میں پہلے شریعت کورٹ اور پھر عدالت عظمیٰ میں فیصلہ ہونے کے باوجود کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے، اس اہم مسئلہ کو ایک بار پھر شرعی عدالت کے سامنے فیصلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت اس کیس پر گزشتہ پندرہ بیس سال سے بیٹھی ہے نجانے کب اس پر فیصلہ ہو گا؟ جس رفتار سے اس کیس کو سنا گیا اگر وہی رفتار برقرار رہی تو پھر ہو سکتا ہے کہ دو تین دہائیاں ہمیں اور انتظار کرنا پڑے۔ میری موجودہ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سے درخواست ہے کہ اس کیس کو جلد از جلد نمٹائیں کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

kk

تازہ ترین