• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) حکومت نے اپنے 5 سالہ دور میں آخری چھٹا بجٹ 2018-19ء کیلئے پیش کیا تھا مگر تحریک انصاف کی نئی حکومت نے اس کی جگہ نئے اہداف کے ساتھ 9مہینوں کیلئے ضمنی بجٹ 2018-19ء پیش کیا ہے جس میں 178 روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جبکہ ایک دن پہلے حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا جس سے 150 ارب روپے کے اضافی ریونیو حاصل ہوں گے۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے 2 لاکھ سے زیادہ آمدنی پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ، اسمارٹ فونز، 1800 سی سی سے بڑی گاڑیوں اور دیگر اشیاء پر ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹی میں 10 فیصد اضافے سے 1800 اشیاء مہنگی ہوجائیں گی جس سے ملک میں مہنگائی ہوگی۔ حالانکہ اعلان کیا گیا ہے کہ 5 زیرو ریٹڈ ایکسپورٹ انڈسٹریز ٹیکسٹائل، سرجیکل گڈز، اسپورٹس گڈز، لیدر اور کارپٹ کے قدرتی گیس کے نرخوں 600MMBTU روپے میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا تاکہ ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رہے لیکن باقی تمام صنعتوں میں گیس کے نرخ بڑھنے سے پیداواری لاگت میں یقینا ًاضافہ ہوگا، سیمنٹ، فرٹیلائزر، ٹائلز اور دیگر بے شمار صنعتیں جو گیس استعمال کرتی ہیں، کی مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی جو ملک میں مہنگائی کا سبب بنے گا۔

وفاقی ترقیاتی بجٹ (PSDP) میں 305 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ہے اور اسے 1030 ارب روپے سے کم کرکے 725 ارب روپے کردیا گیا ہے جبکہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کیا گیا 200 ارب روپے کا اضافہ واپس لے لیا گیا ہے اور EOBI پنشنروں کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ بینکوں کی کیش ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس 0.4 فیصد سے بڑھاکر 0.6 فیصد کردیا گیا ہے۔ بجٹ میں نان فائلرز کو گاڑی اور مکانات خریدنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) حکومت نے اپنے آخری بجٹ میں معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے پابندی لگائی تھی جس سے ٹیکس نان فائلر گاڑی اور مکان نہیں خرید سکتے تھے جس کی وجہ سے آٹو موبائلز اور رئیل اسٹیٹ بزنس میں خاطر خواہ کمی آئی تھی اور مقامی کار مینوفیکچررز اور بلڈرز کا دبائو تھا کہ نان فائلرز پر گاڑی اور مکان لینے کی پابندی ہٹائی جائے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں فروغ پائیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں اور خواتین کی بڑی تعداد جو ٹیکس فائلر نہیں ہیں، بھی بغیر NTN گاڑیاں اور مکان نہیں لے سکتے تھے۔ بجٹ کے بعد اس موضوع پر میرے مختلف ٹی وی چینلز پر پینل ڈسکشن میں یہ بات زیر بحث رہی کہ کیا موجودہ حکومت غیر دستاویزی معیشت کو فروغ دے کر ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو NICOP پر گاڑیاں اور مکانات خریدنے کی اجازت دی جاسکتی ہے لیکن پاکستان میں مقیم ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے گاڑی اور مکان خریدنے کیلئے NTN کی شرط ایک اچھا اقدام تھا جس کو ضمنی بجٹ میں ختم کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں غیر دستاویزی یعنی بلیک اکانومی دستاویزی یعنی آفیشل اکانومی سے بڑی ہے جس کی وجہ سے ہمارے جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح نہایت کم ہے اور ہم کوششوں کے باوجود نئے ٹیکس دہندگان ٹیکس نیٹ میں نہیں لاسکے اور یہی وجہ ہے کہ ہر بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہندگان پر ہی ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ گزشتہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس 15 فیصد کیا گیا تھا۔ نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کے سات سلیب کا اعلان کیا گیا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 25 فیصد رکھی گئی ہے۔ اسی طرح حکومت نے غیر تنخواہ دار طبقے (بزنس مین) کیلئے انکم ٹیکس کے 8 سلیب متعارف کرائے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 29 فیصد ہے۔ ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کیلئے خام مال کی امپورٹ ڈیوٹی 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کردی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کے کراچی میں انفرااسٹرکچر منصوبوں کیلئے 50 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

فیڈریشن آف پاکستان نے نئے بجٹ کو ماڈریٹ قرار دیا ہے جبکہ پاکستان بزنس کونسل (PBC) نے کہا ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے ہمیشہ وکالت کرتی آئی ہے۔ PBC نے نان ٹیکس فائلرز کے بغیر NTN گاڑی اور مکان خریدنے کی اجازت پر تنقید کی ہے اور اسے Retrogressive اقدام قرار دیا ہے جبکہ اپٹما نے پورے ملک میں گیس کی قیمتیں یکساں کرنے کو خوش آئند کہا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت ہمیں 6.6 فیصد کا ریکارڈ خسارہ دے کر گئی ہے لیکن اسٹیٹ بینک سے حاصل ڈیٹا کے مطابق حیرت انگیز طور پرجولائی اور اگست 2018ء میں ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2.72ارب ڈالر یعنی جی ڈی پی کا 10 فیصد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ معیشت دانوں کا خیال ہے کہ 2018-19ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ کر 21ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جس کیلئے 31 ارب ڈالر سے زیادہ کی ایکسٹرنل فنانسنگ درکار ہوگی۔ 30 جون 2018ء تک ملکی قرضوں میں 35 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور وہ 60 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جن کی ادائیگیاں حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے اپنے دوست ممالک سے زرمبادلہ حاصل کرنیکی کوشش میں ہے اور وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کا حالیہ دورہ سعودی عرب اور عرب امارات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ گزشتہ دو مہینوں میں ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو جون اور جولائی میں 2.26 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔بیرون ملک پاکستانیوں سے ترسیلات زر میں بھی 13.45 فیصد اضافہ ہوا ہے جو جولائی اور اگست میں 3.96 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گررہے ہیں اور ہمارے پاس بمشکل 2 ماہ کی امپورٹ کے ذخائر موجود ہیں۔ بیرونی ذخائر میں کمی سے ہمارے روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے اور چند ماہ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 20 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ 5 سال قبل ہمارے ملکی قرضے 16000ارب روپے تھے، اب 28000 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، واپڈا پر ناقابل برداشت قرضے ہیں جو وفاقی حکومت کوادا کرنا ہیں۔ علاوہ ازیں ان اداروں کو چلانے کیلئے قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے ادا کئے جارہے ہیں۔ اسکے علاوہ ایکسپورٹرز کے 200ارب روپے کے انکم و سیلز ٹیکس ریفنڈز اور 1200ارب روپے کے خطرناک حد تک بڑھ جانے والے گردشی قرضے بھی لٹکتی تلوار ہیں جن کی ادائیگیاں ایک سوالیہ نشان ہے۔

معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے مجھے حکومت کا نیا بجٹ آئی ایم ایف جانے کی تیاریاں لگتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی قرضے دینے کی شرائط میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی، سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکسز اور ڈیوٹی میں اضافے جیسی شرائط شامل ہوتی ہیں اور وزیر خزانہ گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ضمنی بجٹ میں باقی شرائط پر عملدرآمد کرتے نظر آتے ہیں۔ مالی خسارہ کم کرنے کیلئے حکومت نے نئے بجٹ میں کئی اقدامات کئے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کیلئے یہ بڑی آزمائش ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے مالی خسارے کو 6.6 سے کم کرکے 5.1 فیصد کی سطح پر لائے اور ساتھ ساتھ عوام میں اپنی مقبولیت بھی برقرار رکھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین