• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب اتفاق ہے کہ 19ستمبر 2018ء کو جب وزیر اعظم عمران خان سعود ی عرب کی مقدس سرزمین پر خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان سے ملاقات کر رہے تھے ، اسی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کی سزا معطل کرکے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا اسی دن آرمی چیف نے بیجنگ میں چین کے مرد آہن صدر شی چن پنگ سے ملاقات کی ۔ اسی روز وزیر اعظم عمران خان کے جوابی خط پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاک بھارت مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی نیو یارک میں ملاقات پر اتفاق کیا ۔ یہ اور بات ہے کہ بعد ازاں بھارت نے وزرائے خارجہ ملاقات سے انکار کر دیا ۔ یہ اتفاقات کن باتوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ان تمام اتفاقات سے قبل 5ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کا دورہ کیا ، جس میں پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونیوالے تعطل کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ۔ 6ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ نے بھارت جا کر جو باتیںکیں ، ان سے یہ واضح ہو گیا کہ تعطل ختم نہیں ہوا ۔ 8ستمبر کو چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی تین روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ، جس میں انہیں پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی نئی حکومت کے خیالات کا پتہ چلا اور 10 ستمبر کو چینی وزارت خارجہ کا ایک بیان جاری ہوا ، جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ سی پیک میں پاکستانی ترجیحات کو شامل کیا جائیگا 15ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کا دورہ کیا اور پاک افغان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے دونوں ملکوں نے غیر معمولی اقدامات کا اعلان کیا ۔ 17ستمبر کو تحریک انصاف کی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اور 18 ستمبر کو منی بجٹ دیکر 178ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کر دیئے ۔ اس پس منظر میں 19ستمبر کے اتفاقات رونما ہوئے ۔ ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی نئی حکومت میں جوکچھ ہو رہا ہے ، وہ بہت تیزی سے ہو رہا یا تیزی سے فیصلے کرنے کے حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت کو خارجہ پالیسی میں خاص طور پر بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا ۔

ہماری خارجہ پالیسی پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ ہر چند کہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب بہت کامیاب رہا لیکن اسکے بہت دور رس نتائج ہوں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سوا وفاقی کابینہ میں باقی تقریباً تمام لوگ ’’اسٹیٹ کرافٹس مین شپ ‘‘ سے نابلد ہیں اور پرویز خٹک اور ایک دو دیگر لوگوں کے سوا باقی حکومتی امور چلانے کا تجربہ بھی نہیں رکھتے ۔ خارجہ پالیسی کے فیصلوں میں اس قدر جلدی سے گریز کرنا چاہئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ سی پیک کے منصوبوں پر ہونے والے معاہدوں کی شرائط پر نظرثانی کرنی چاہئے ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں امریکہ کیساتھ دیرینہ تعلقات میں تیزی سے پیدا ہونے والے بگاڑ کے عمل کو روکنا چاہئے ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں بھارت کیساتھ کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اپنے ’’اصولی‘‘ موقف میں ایسی لچک پیدا کرنی چاہئے ، جو ہمارے لئے سبکی کا باعث نہ ہو اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ افغانستان کیساتھ10سال قبل شروع ہونے والی ’’ لڑائی ‘‘ کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن اب یہ سب کچھ کرنا آسان بھی نہیں رہا ۔ نہ سویلین حکومت کیلئے اور نہ کسی دوسرے کیلئے ۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تھوڑے عرصے میں وہ پیش رفت کی ہے ، جو خارجہ امور میں شاید کوئی دوسری جمہوری سویلین حکومت نہیں کر سکی اور اگر کسی نے کرنے کی کوشش بھی کی تو اس کی اسے قیمت ادا کرنا پڑی لیکن اس تیز رفتاری کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کا دورہ کیا اور تعلقات بہتر بنانے کیلئے افغانستان کو کئی مراعات دیں ۔ افغانستان سے درآمدات پر ڈیوٹی ختم کی گئی ۔ پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا اور جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن افغانستان کو اس بات پر قائل نہیں کیا گیا کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ یہ نتیجہ نکلا ؟ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے اور امن کی خواہش کا اظہار کیا گیا ۔ بھارت نے مذاکرات سے نہ صرف انکار کیا بلکہ بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو جنگ کی دھمکی بھی دی ۔ یہ نتیجہ نکلا ؟ چین سے کچھ فاصلہ پیدا کرنے اور امریکہ کی ہر بات ماننے کا عندیہ دیا گیا لیکن امریکی وزیر خارجہ نے بھارت جا کر یہ تاثر دے دیا کہ اسے پاکستان کی ضرورت نہیں ۔ یہ نتیجہ نکلا ؟ چین نے بھی پہلے کی طرح 13ستمبر کے امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیے پر پاکستان کیساتھ دینے کے روایتی بیان سے اجتناب برتا ۔ یہ نتیجہ نکلا ؟ تھوڑا احتیاط کی ضرورت ہے ۔ فوری کایا پلٹ ممکن نہیں ۔

پاکستان قرضوں میں دبی ہوئی ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہے ۔ معاشی پالیسیاں قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے ڈکٹیٹ کراتے ہیں ۔ 17اور 18ستمبر کے حکومتی اقدامات اور منی بجٹ کی کیا وضاحت کی جائیگی ؟ جہاں تک داخلی اور خارجہ پالیسی کے معاملات ہیں ، یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خارجہ پالیسی دراصل ملک کی داخلہ پالیسی کا عکس ہوتی ہے اور داخلہ پالیسی کے خدوخال ملک کے معاشی حالات سے بنتے ہیں ۔ مقروض ملک اپنی معاشی پالیسی نہیں بنا سکتا ۔ معاشی پالیسی نہ ہو تو داخلہ پالیسی بنانا اپنے بس میں نہیں رہتا ۔ داخلی حالات بہتر نہ ہوں تو خارجہ پالیسی قومی پالیسی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتی ۔ ہماری معاشی پالیسیوں میں عالمی مالیاتی اداروں کا عمل دخل زیادہ ہے ۔ داخلی اور خارجہ پالیسی ہمارے سیکورٹی معاملات کے تابع ہے ۔ لہٰذا سویلین حکومت کے معاشی ، داخلی اور خارجی پالیسی میں عمل دخل کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ۔ وہ سویلین حکومتیں مشکل میں رہیں یا نہیں رہیں ، جنہوں نے ان پالیسیوں میں عمل دخل کی کوشش کی ۔ جن سویلین حکومتوں کو ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل ہوتا ہے ۔ وہ بھی ٹکراؤ کی بجائے عمل دخل میں بھی گریز کی پالیسی اختیار کرتی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اب تک اپنے اقدامات کا اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کے تناظر میں ازسر نو جائزہ لینا چاہئے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت چین ، امریکہ ، بھارت اور افغانستان سے تعلقات کے معاملات میں الجھی ہوئی ہے اور یہ الجھن سویلین حکومتوں کی پیدا کردہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کیلئے بہت چیلنجز ہیں ۔

بین الاقوامی تعلقات میں دیگر ممالک اس بات کو ضرور نظرمیں رکھتے ہیں کہ جس حکومت کے ساتھ وہ معاملات طے کر رہے ہیں ، اس حکومت کی اپنے ملک میں کیا حیثیت ہے ۔ عوام کی اسے کتنی حمایت حاصل ہے اور ملک کی حقیقی سیاسی قوتوں کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہیں ؟ ہم سعودی عرب کا بہت احترام کرتے ہیں ۔ اس سے ہمارے مذہبی اور روحانی رشتے ہیں ۔ سعودی عرب نے ہمارا مشکل میں بہت ساتھ دیا ہے ۔ اس سوال میں نہیں پڑتے کہ مشکل کس نے پیدا کی لیکن آج کی دنیا مفادات کی دنیا ہے ۔ ہمیں اپنے مفادات ارد گرد کے حالات ، علاقائی و عالمی سطح پر ہونیوالی نئی صف بندیوں اور زمینی حقائق کا بھی ادراک کرنا چاہئے ۔ ہمیں شام ، عراق ، لیبیا ، تیونس ، افغانستان اور دیگر مستحکم ریاستوں اور معیشتوں کی تباہی کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے ۔ جو اسلامی بلاک بھٹو نے بنایا تھا ، اس بلاک کے ملکوں کو آپس میں دست و گریبان ہونے کے تماشے پر بھی غور کرنا چاہئے ۔

افغانستان کی طرح ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے ہم ایران کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے ۔ ہم چین کے تعلق کو بھی وقتی ضروریات پر قربان نہیں کر سکتے ۔ ہم سی پیک کو امریکہ کی ناراضی سے بھی نہیں جوڑ سکتے ۔ ہم سی پیک کی وجہ سے امریکہ کی ناراضی بھی قبول نہیں کر سکتے ۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ پاکستان داخلی جنگ اور خارجی تنہائی کا شکار ہے ‘‘ یہ ایک جملہ کافی ہے ۔ یہ بگاڑ سیاسی اور سویلین حکومتوں کا پیدا کردہ نہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت تھوڑا سوچے ، تھوڑا صبر کرے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین