• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو راندیشی، بالغ نظری، فہم و فراست اور صلح جوئی غالب آئی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے عام انتخابات 2018ءمیں مبینہ دھاندلی اور بے قا عد گیو ں کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کے مطالبے پر خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرانے کا وعدہ عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد خود کیا تھا جسے انہوں نے وفا کردکھایا جس پر وہ یقیناً خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ قومی اسمبلی کے جس اجلاس میں خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی منظوری دی گئی اس میں وزیر اعظم عمران خان خود بھی موجود تھے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کو یہ نوید سنائی کہ حکومت انکے مطالبے پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کیلئے تیار ہے کیونکہ تحریک انصاف شفافیت کی قائل ہے جس کیلئے اس نے طویل جدوجہد کی ہے۔ خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کیلئے تحریک کی منظوری کے وقت ایک مرحلے پرمعاملہ بگڑنیکا خدشہ پیدا ہوا جب اپوزیشن رہنمائوں نے کمیٹی میں حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان کی تعداد مساوی رکھنے اور اس کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دینے کا مطالبہ کیا تاہم تحریک انصاف نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیٹی میں ارکان کی مساوی تعداد شامل کرنے کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا ،دوسری طرف اپوزیشن کمیٹی کی چیئرمین شپ حکومت کو دینے پر رضامند ہو گئی اور یوں وہ تنازعہ جس نے مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کو چولیں ہلا دی تھیں خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ قومی اسمبلی میں خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کیلئے منظور کی گئی تحریک میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی صرف قومی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل ہو گی جو عام انتخابات 2018ءمیں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے ٹی او آرز طے کریگی، انہی ٹی اور آرز کی روشنی میں مزید اقدامات کریگی،مقررہ وقت میں اپنی رپورٹ پیش کریگی، اسپیکر قومی اسمبلی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے ذریعے کمیٹی تشکیل دینگے اور انکی مشاورت سے ضرورت کے تحت کمیٹی میں تبدیلیاں کی جا سکیں گی جبکہ کمیٹی کے چیئرمین کی نامزدگی وزیر اعظم پاکستان کرینگے۔ اسی تحریک کی روشنی میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کیلئے اپوزیشن جماعتوں سے ارکان کی نامزدگیوں کیلئے نام طلب کرلئے ہیں تاہم سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کمیٹی صرف قومی اسمبلی ارکان پرمشتمل نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس میں سینیٹ کے ارکان کو بھی شامل کیا جائے۔ سینیٹرز نے صرف قومی اسمبلی کے ارکان پرمشتمل کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے جبکہ اس ضمن میں سینیٹ کی طرف سے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک خط بھی بھیج دیا گیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی ایسی جماعتوں کی طرف سے کمیٹی میں نمائندگی دینے کا مطالبہ توجائز ہے جن کی قومی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں اسلئے صرف قومی اسمبلی کے ا رکان پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے سے انکی حق تلفی ہو گی جبکہ ان کے تحفظات دور نہیں ہو سکیں گے۔ ایسی جماعتوں میں نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی قابل ذکر ہیں جن کی موجودہ قومی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں تاہم وہ سینیٹ میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف تشکیل دئیے گئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد؛ پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشنز ؛ کا بھی حصہ ہیں اسلئے ان جماعتوں کی تحقیقاتی کمیٹی میں نمائندگی ضروری ہے۔ سینیٹ میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کمیٹی میں شمولیت کا مطالبہ اسلئے مناسب نہیں ہے کیونکہ ان کی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں بھرپور نمائندگی موجود ہے اور وہ اپنی سفارشات اپنی جماعت کے ذریعے کمیٹی میں پیش کر سکتی ہیں تاہم اگر حکومت وسیع پیمانے پراتفاق رائے چاہتی ہے تومزید فراخ دلی کا مظاہرہ کر کے سینیٹ کے ارکان کو خصوصی کمیٹی میں شامل کر سکتی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں عام انتخابات 2013ءمیں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات اور آئندہ انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے جو انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس میں دونوں ایوانوں سے 34 ارکان شامل کئے گئے تھے۔ گزشتہ ہفتے اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک نشست میں عندیہ دیا تھا کہ خصوصی تحقیقاتی کمیٹی تقریباً اٹھارہ ارکان پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ یہاں حکومت سے گزارش ہے کہ چونکہ اس کا اور اپوزیشن کا مطمح نظر یکساں ہے جس کے تحت پاکستان میں عام انتخابات کے عمل کو غیر جانب دار، شفاف اور الزامات سے پاک بنانا ہے اس لئے اگر خصوصی کمیٹی کو پارلیمانی کمیٹی کا نام دے کر اس میں سینیٹ ارکان کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے بلکہ حکومتی اقدام کو بھرپور پذیرائی حاصل ہو جائے گی۔ تحقیقاتی کمیٹی سینیٹر رحمان ملک اور سینیٹراعظم سواتی کی سربراہی میں قائمہ کمیٹیوں کی عام انتخابات میں بے قاعدگیوں کے بارے میں متعلقہ حکام اور ماہرین سے پوچھ گچھ کے بعد تیار کی گئی رپورٹوں میں شامل سفارشات سے بھی استفادہ کر سکتی ہے۔ سینیٹر رحمان ملک کی طرف سے بطور سربراہ قائمہ کمیٹی داخلہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے بعد اب تک تین رپورٹیں سینیٹ میں پیش کی جا چکی ہیں جن میں بتایا گیا کہ آر ٹی ایس کا فرانزک آڈٹ بھی کرایا گیا ہے۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ کی طرف سے ایوان میں پیش کی گئی آخری رپورٹ میں تو یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ یو این ڈی پی کی مدد سے تیار کردہ الیکشن کمیشن کے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس ) کو ای سی نامی جس کمپنی نے سیکورٹی سرٹیفکیٹ دیا تھا اس کا ہیڈ کوارٹر بھارتی حیدرآباد میں جبکہ اس کا ایک دفتر نیو یارک میں تھا اور الیکشن کمیشن کو اس کمپنی کے ہیڈکوارٹر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔ اسی طرح حکومتی سینیٹر اعظم سواتی کی سربراہی میں کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے نہ صرف آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی کا ذکر کیا بلکہ اس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو قرار دیتے ہوئے چیئرمین الیکشن کمیشن کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ اور متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کر دی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات پارلیمنٹ کی سطح پرکرنےپر رضامندی ظاہر کرنا اس لئے بھی لائق تحسین ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور حکومت میں تحریک انصاف کے مطالبے پر تحقیقات کرنے کیلئے کمیٹی کے قیام پر ایک سال صرف کر دیا تھا اور رضامندی بھی تب ظاہر کی گئی تھی جب تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد لاہور سے اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی ہٹ دھرمی کے خلاف تحریک انصاف نے 126 دن کا طویل ترین دھرنا بھی دیا اور بالآخر سپریم کورٹ کے کمیشن کی طرف سے انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزمات کو رد کئے جانے کے بعد پارلیمنٹ کا رخ کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 کے ذریعے جو تاریخی اصلاحات کی گئیں وہ تحریک انصاف کے احتجاج کا ہی ثمر تھا۔ وقت بدل چکا اب تحریک انصاف کی جگہ پاکستان مسلم لیگ ن نے لے لی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پارلیمنٹ اور باہر احتجاج کرنے کی ٹھان لی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر پارلیمانی کمیشن قائم نہ کیا گیا تو وہ قومی اسمبلی کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے تاہم موجودہ حکومت نے اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کر کے احتجاج کا راستہ بند کرنے اور معاملے کو پارلیمنٹ کی سطح پر حل کرنے کا وہ قدم اٹھا لیا جسے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی خوش آئند قراردیا ہے۔ خصوصی کمیٹی کے قیام کا حکومتی اقدام جہاں ملک میں اداروں اور جمہوریت کی مضبوطی کا سبب بنے گا وہیں گزشتہ انتخابی اصلاحات میں باقی رہ جانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ حکومت کے اس احسن اقدام کے بعد بجا طور پہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب پارلیمنٹ یکسوئی کے ساتھ عام آدمی کے مسائل کے حل اور ملکی تعمیر و ترقی کیلئے موثر قانون سازی کر سکے گی جبکہ تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں پاکستان میں ایسا انتخابی عمل ممکن بنایا جائے گا جس کے بعد انتخابات میں ہارنے والا جیتنے والے پر الزام تراشی کی بجائے اسے گلے لگا کر مبارک باد دے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین