• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی خزانے کو بھرنے کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت جہاں مختلف معاشی اقدام کر رہی ہے ۔ وہاں گڈ گورننس اور کفایت شعاری اپنانے کا نہ صرف مصمّم ارادہ رکھتی ہے بلکہ اس ضمن میں عملی شکل بھی واضح کرنے کی کوشش میں ہے ۔ وزیراعظم عمران نے حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم ہائوس میں رہنے کی بجائے ملٹری سیکریٹری کی رہائش گاہ کو اپنا مسکن بنایا ، پروٹوکول لینے کو ناپسند کیا ، لیکن جب انہوں نے بذریعہ خصوصی ہیلی کاپٹر بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس کا سفر شروع کیا تو انہیں عام لوگوں سے میڈیا تک نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ حکومت میں آتے ہی اعلان کیا کہ خصوصی طیارے کی بجائے عام جہازوں پر سفر کیا جائیگا لیکن جب وزیراعظم نے اندرون ملک کراچی کا پہلا دورہ کیا یا غیر ملکی پہلے دورے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات گئے تو خصوصی طیارہ استعمال کیا گیا—یہ بڑی اطمینا ن بخش بات ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے گھر کراچی نہ صرف عام فلائٹ سے گئے بلکہ اپنا سامان بھی خود اٹھایا اور قطار میں لگ کر بورڈنگ کرائی ، لیکن جونہی وہ ایئرپورٹ سے باہر آئے تو انہیں زبردست پروٹوکول دیا گیا ، جسے میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایاتو صدر مملکت کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پروٹوکول لینا پسند نہیں کرتے ، البتہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کیلئے ٹرین کے ذریعے لاہور آئے اور بس کے ذریعے واپس اسلام آباد گئے ۔ وزیراعظم نے کفایت شکاری اپناتے ہوئے وزیراعظم ہائوس کی 102 گاڑیاں نیلام کرنے کا اعلان کیا پھر 17ستمبر کو 61گاڑیاں نیلام بھی ہوگئیں، جس سے 20کروڑ روپے اکٹھے ہوئےعمران خان کے اسی فیصلے کو لوگوں نے بہت سراہاکیونکہ گیارہ سو کنال پر مشتمل وزیراعظم ہائوس جس کی تکمیل 1992ء میں ہوئی اور جس کے پہلے اور آخری مکین میاں نواز شریف تھے ، اسکی ڈیکوریشن کے قیمتی سامان میںہاتھی دانت بھی شامل ہیں۔ مہمانوں کیلئے تین طرح کے مہان خانے، شاندار ڈرائنگ روم کے علاوہ کانفرنس روم ہے ، جس کی کرسیوں کا اب تک پلاسٹک بھی نہیں اُترا، اسکا کچن بہت بڑا اور خانسامے لفٹ کے ذریعے آتے جاتے ہیں ۔ وزیراعظم ہائوس کے قیمتی آرائشی سامان سے لگتا ہی نہیں کہ یہ پاکستان کا حصہ ہے۔ اس پر سالانہ 47کروڑ روپے کے اخراجات آتے تھے ، اب اسکو اعلیٰ درجے کی تحقیقاتی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ چاروںصوبوں کے گورنر ہائوسزکو میوزیم میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے خصوصی پریس کانفرنس کر کے عوام کو وزیراعظم کے ان فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گورنمنٹ ہائوس مری کو ہیرٹیج بوتیک ہوٹل ، پنجاب ہائوس مری کو سیاحتی کمپلیکس میں اور راولپنڈی میں پنجاب ہائوس سے ملحقہ گورنر اینکسی کواعلیٰ تعلیمی ادارے میں تبدیل کیا جائے گا۔90شاہراہ قائداعظم لاہور کو کرافٹ ہائوس ، اس عمارت کے کانفرنس ہال کو پبلک کیلئے رینٹ آئوٹ کیاجائیگا، جس سے آمدنی حاصل ہوگی ۔ لاہور کےا سٹیٹ گیسٹ ہائوس کو فائیو اسٹار ہوٹل میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ، لاہور میں واقعہ چنبہ ہائوس بطور گورنر آفس جبکہ کراچی اسٹیٹ گیسٹ ہائوس بھی گورنر ہائوس کے طور پر استعمال ہوگا۔ اور قصرناز کراچی کی عمارت کو فائیو اسٹار ہوٹل میں تبدیل کر دیا جائیگا۔ اسی طرح نتھیا گلی کے گورنر ہائوس کو ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل اور سیاحتی مقام میں تبدیل کر دیاجائیگا۔

حکومت نے اپنے پہلے 35دنوںمیں یہ اعلان تو کر دیئے ہیں جسے عوام بھی اچھی نظروں سے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ نشاندہی بھی کر رہے ہیں کہ ملک کے اندر لاکھوں ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضے کو واگزار کروا کر اور محکمہ ریلوے ، جنگلات کی وہ زمینیں جو بالکل بیکار پڑی ہیں، جن کی دیکھ بھال پر سالانہ اربوں روپے خرچ آتے ہیں ، فوری فروخت کر کے ڈیم فنڈمیں دے دینا چاہئے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً403ارب 11کروڑ روپے مالیت کی 8ہزار 975کنال اراضی پر سرکاری رہائش گاہیں اور بنگلے قائم ہیں جن کی دیکھ بھال اور دیگر اخراجات پر سالانہ 10ارب 41کروڑ روپے خرچ کئے جار ہے ہیں۔ ان بڑی رہائش گاہوں میں 10سے 52ملازمین تعینات ہیں جن کی کل تعداد 19 ہزار 278ہے اور ان کی تنخواہوں پر سالانہ 5ارب 12کروڑ 67لاکھ 20ہزار سرکاری خزانے سے ادا کئےجاتے ہیں ، ان کو بھی فروخت کیا جائے۔

وزیراعظم عمران نے بیوروکریسی سے کھلے عام خطاب کرتے ہوئے انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش کی اور کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں ، جو کرپشن کی طرف لے کر جاتی ہے، اسکا ازالہ کرینگے وہ بلا تخصیص اپنی کارکردگی دکھائیں خواہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں،لیکن جو غلط ہیں ان کااحتساب بھی ہوگا۔ بلاشبہ اسکے بعد عوام کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا اور یہ تک کہاگیا کہ قائداعظم ؒ کے نقش قدم پر چلتا کپتان،اب ذراکپتان کو یہ حقیقت بھی بتانا مقصود ہے کہ بیوروکریسی ایک بے لگام گھوڑاہے اور جب تک لگام نہ دی گئی یہ حکومت کو چلنے ہی نہیں دے گی۔ کیونکہ وزیراعظم ہائوس سے لیکر گورنر ہائوسز اور دیگر سرکاری عمارتیں یا لاکھوں ایکڑ سرکاری اراضی کو فروخت کرنے یا دیگر تعمیری استعمال کو یقینی بنانے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہوگی۔ پہلے سو دنوں میں حکومت کیلئے یہ سب سے بڑا اور پہلا ٹیسٹ کیس ہے ۔ اگر حکومت اپنے ان فیصلوں پر عمل درآمد کرالیتی ہے تو اس ملک میںتبدیلی ضرور آکر رہے گی ۔ ملک خوشحالی کی طرف ضرور بڑھے گا ۔ لیکن اگر ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا تو پھر سو دن تو کیا سترہ سو دنوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ عوام وزیراعظم تک افسر شاہی کی شاہانہ زندگی کے حوالے سے یہ رپورٹ ضرور پہنچانا چاہیں گے کہ صوبہ پنجاب کے چیف سیکرٹری پر ماہانہ سرکاری خزانے سے تقریباً 52لاکھ 60ہزار روپے جبکہ سالانہ 6کروڑ 31لاکھ 20ہزار روپے سے زائد جبکہ آئی جی پنجاب پر ماہانہ 58لاکھ 30ہزار روپے، سالانہ تقریباً6کروڑ 99لاکھ 60ہزار روپے سرکاری خزانے سے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ دیگر سیکریٹریز و افسر 22لاکھ 40ہزار روپے ماہانہ میں پڑتے ہیں۔ اسی طرح کے حالات ملک بھر کی دیگر بیوروکریسی کے ہیں۔ وزیراعظم کفایت شعاری کی گردان تو کر رہے ہیں لیکن اُن کی حکومت کے 35دن کا عمل اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتا ہے۔ وزیروں ، مشیروں کی بڑھتی جارہی ہے ، صرف ایک صوبائی وزیر پر تقریباً 23لاکھ روپے ماہانہ خرچ کئے جاتے ہیں ۔ وزیراعظم اگر ملک کو ایک مثبت ڈائریکشن دینا چاہتے ہیں جسکا عندیہ انہوں نے پہلی تقریر میں دیا تھا ، اس پر نہ صرف خود عمل کر کے عوام کو دکھائیں بلکہ تمام ممبران اسمبلی ، وزارء اور بیوروکریسی سے اس پر عمل بھی کروائیں ۔ گو یہ ایک سمبل (symbol)ہے لیکن اگر پہلے سو دنوں میں عوام کو یہ چیزعملی طور پر نظر آتی ہے تو پھر ہی اعتماد بحال ہوگااور اسکے بعد ملکی خزانے میں کوئی کمی نہیں رہے گی۔ عوام کا ایک اور بھی سوال ہے کہ بیوروکریسی کو بڑی بڑی رہائش گاہوں سے چھوٹی رہائش گاہوں میں منتقل کرنے کیلئے ایک یا دو مہینے کا وقت درکار ہوگا لیکن سینکڑوں ایسے افسران بھی ہیںجو دوسرے شہروں یا صوبوں میں ٹرانسفر ہوچکے ہیں مگر کئی کئی سالوں سے دونوں رہائش گاہوں میںبراجمان ہیں وہ تو یہ بھی خالی نہیں کرتے اور نہ ہی حکومت کراسکتی ہے۔ اس لئے حکومت اگر اس پہلے ٹیسٹ کیس میں پاس ہو جاتی ہے تو پھر عوام بھی تبدیلی محسوس کر لیں گے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین