• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

ہمارے ملک کے لوگوں، اداروں اور حکمرانوں کی نفسیات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ہم ہر وہ چیز اپنانا چاہتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ہزار گنا بڑے ملک میں عام ہوتی ہے۔ بھلے سے ہم اس چیز کے اہل ہوں یا نہ ہوں۔ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک نے سب سے پہلے اپنا یہاں پرائمری تعلیم کو 100 فیصد تک پہنچایا پھر سکینڈری سطح پہ گئے۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب ان کے ملک میں شرح خواندگی 100فیصدہوچکی ہے تو پھر انہوںنے اعلیٰ تعلیم کی طرف رجوع کیا سرکاری سطح پہ۔ یعنی ان تمام ممالک میں پرائمری اور سکینڈری تعلیم لازمی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب لوگوں کی مرضی کے وہ اپنے بچے نجی اسکول میں بھیجیں یا سرکاری لیکن تعلیم سب کوحاصل کرنی ہے اور حکومت اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال کرتی رہتی ہے۔ ان ممالک میں اعلیٰ تعلیم سرکارکی نہیں انسان کی انفرادی ذمہ داری تھی نجی جامعات اس سلسلے میں بہت آگے تھیں اور بھاری فیسوں اور " معیار" کے عوض اعلیٰ تعلیمی سنددے رہی تھیں۔ بھاری فیس ہونے کی وجہ سے ان ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم کا زیادہ رحجان نہ تھا اور عموماً بیرون ملک سے لوگ آکر یہاں بستے اور نوکری حاصل کرتے ہیں ۔اس رحجان کو دیکھتے ہوئے ان ممالک نے H.E.C کے نام پہ ایک سرکاری ادارہ بنایا جس کے تحت سرکاری سطح پہ بھی مقامی لوگوں میں اعلیٰ تعلیم کا رحجان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے خاص طور پر وہ لوگ جو قابلیت تو رکھتے ہیں مگر مالی استعداد نہ ہو۔تو ایسے ذہین اور ہونہار لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے H.E.C کا ادارہ کام کرتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں جہاں آبادی کا 50 فیصد 25 سال سے کم عمر لوگوں پہ مشتمل ہے۔ ہرسال 5 سال اور اس سے اوپر عمر کے بچے پرائمری اسکول میں داخلہ لیتے تو ہیں مگر پچاس فیصد تعلیم چھوڑدیتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار کسی کی ذہنی اختراع نہیں بلکہ پاکستان اکنامک سروے میں موجود ہے۔ سوچئے ذرا جس ملک میں ہر سال 50 فیصد بچے پرائمری سطح کی تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ ایسے میں ہمارا شرح خواندگی 50 فیصد سے اوپرچلاجاتا ہے۔۔۔۔یقیناً اچھبنے کی بات ہے 15 سال سے کم عمر بچوں کا اسکول کی شکل نہ دیکھنا یقیناً ایک دردناک حقیقت ہے۔ مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایسا صرف گاؤں دیہات یعنی صرف دیہی علاقوں میں نہیں ہوتا بلکہ بڑے شہروں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ کبھی کسی کچی آبادی اور غریب علاقوں کا صرف کراچی ، اسلام آباد، لاہور کا دورہ کرلیں تواندازہ ہوجائے گا۔ ایسے میں سابق فوجی صدر کے دست مبارک سے HEC کا قیام جس پر حکومت ایک خطیر رقم خرچ کررہی ہے۔ تعلیم کے پورے بجٹ کا 80 فیصد سے زائد اعلیٰ تعلیم پہ خرچ کیا جاتا ہے۔ سوچیں ذرا میلنیم ڈیولپمنٹ گول MDG جس کے تحت 2015 تک ہر ملک میں پرائمری تعلیم کی شرح 100 فیصد ہونی چاہیئے تھی ۔وہ ٹارگٹ ابھی پورا تو کیا آدھا بھی نہیں ہوا ہے اور ہم HEC کے تحت اعلیٰ تعلیم کا شور مچارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی گہری اور پکی بنیادوں کے بغیر کوئی عمارت معیاری اور شاندار کہلاسکتی ہے؟ بالکل نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تعلیمی بجٹ کل صرف 7 فیصد پرائمری تعلیم پہ خرچ کیا جارہا ہو جس میں بھوت اسکول اور بھوت استادوں(گھوسٹ اسکولز اور گھوسٹ ٹیچرز) بے انتہا ہوں۔ کیا معیارتعلیم کو اس طرح بہتربنایاجاسکتا ہے؟دوسری طرف پرائمری اور سکینڈری مکمل طور پر نجی اداروں اور افراد کے ہاتھوں میں ہوں جہاں سے انسانی اور مالی تفریق کا آغاز ہوتا ہے۔ اور اعلیٰ تعلیم جہاں پہ تفریق ختم ہوسکتی تھی سرکاری اداروں کے پاس ہے۔HEC کا اصل مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم اورتحقیق کے معیار کو بہتر سے بہتربنانا ہے تاکہ ملک میں موجود سائنسدان اور مختلف مضمون کے ماہرین سے وقت آنے پہ مدد لی جاسکے۔ مگر افسوس 15 سال سے زائد گزرنے کے باوجود آج تک ان محقیقین سے استفادہ حاصل نہیں کیا جاسکا۔ کیونکہ حکومت بناتے وقت کسی بھی فارن کوالفائڈ سیاستدان کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے ناہی اس کی ڈگری دیکھی جاتی ہے ۔ لیکن حکومت بننے کے بعد جب کوئی کمیٹی کے ممبرز ، ادارے کے سربراہ یا مشیرخاص کا چناؤ کیا جاتا ہے تو فارن کوالیفائڈ ڈھونڈاجاتا ہے۔ ایسے میں تھوک کے حساب سے ملک میں موجود پی ایچ ڈیز اور محقیقین کس دن کے لیے تیار کئے جارہے ہیں ؟اگر ان سے کام نہیں لینا یا پھر ان کا معیار درست نہیں ۔تودونوں صورتوں میں ایچ ای سی کا وجود سوالیہ نشان ہے۔کیونکہ اداروں کی پہچان ان کے بنانے والوں یا سربراہ سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی پروڈکٹ کی مارکیٹ ویلیو سے ہوتی ہے اگر پروڈکٹ کی مارکیٹ میں کھپت ہی نہ ہوتوکمپنی بند کردی جاتی ہے ۔ ذرا سوچئے۔

تازہ ترین