• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک کو سوئز کنال کے ذریعے یورپ کے ساحلوں تک پہنچانے کا منصوبہ

قاہرہ (عامر غوری) پاکستان، مصر، چین اور یورپ کے وزرا، سینئر سرکاری افسران، دفاعی اہلکار ، مرکزی بینک اور کمرشل اداروں کے رہنما، تجارت اور دیگر سیکٹرز کے سربراہان، سرمایہ کار، پالیسی میکر قاہرہ میں جمع ہوئے ہیں تاکہ چینی صدر ژی جن پنگ کی جانب سے 2013میں متعارف کردہ ٹریلن ڈالر سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے شراکت داری کے طریقوں پر غورکیا جاسکے۔ چار روزہ سی پیک ۔ بی آر آئی قاہرہ مذاکرات اور تجارتی سربراہ اجلاس کے نتیجے میں، جو کہ اسلام آباد میں قائم ساوتھ ایشین اسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ (ایس اے ایس ایس آئی) کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے، امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں ایشیا، وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک میں مستقل بات چیت اور تعاون کا نادر پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔ تاریخی سمندری روٹ کو سوئز کنال کے راستے سے ابھرتے ہوئے گوادر گیٹ وے سے جوڑنے کی کاوش ایک ایسا منفرد منظر ہے جس کے ذریعے کروڑوں عوام ، جو سلک روڈ اکانامکبیلٹ اور 21ویں صدی کی سمندری سلک روڈ سے جڑنا چاہتے ہیں، کی ترقی اور خوشحالی کا امکان نظر آتا ہے۔ قاہرہ میں اس بات چیت کے انعقاد کا جواز پیش کرتے ہوئے ایس اے ایس ایس آئی کی صدر ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ مصر نہ صرف افریقہ کا دروازہ ہے بلکہ یہ مستقبل کی ابھرتی ہوئی بین الاقوامی تجارت کا بھی دروازہ ہے۔ جو کچھ ہم تجویز کررہے ہیں وہ شمال ۔ جنوبی راہداری ہے جو سی پیک اور بی آر آئی کے پہلے سے موجود فریم ورک پر بنائی جانی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے اپنی جیت یقینی بنائی جائےجیسا چین کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ ہر ایک کے لئے جیت کی صورت ہے۔ ہم علاقائی ربط سازی اور شراکت داری قائم کر رہے ہیں جس کے ذریعے ہمارے عوام کو اس عظیم تر معاشی تبدیلی سے فائدہ ہوگا۔ قاہرہ سربراہ اجلاس ، جس کے لئے منصوبہ بندی کئی مہینوں سے جاری ہے، اس سے بہتر وقت نہیں منعقد ہوسکتا تھا جب پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے چین کی منظوری سے سعودی عرب کو سی پیک میں تیسرے اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر شامل کرلیا ہے ۔ لیکن کیا اس منصوبے کی اس حد تک توسیع کہ سوئز کنال کے ذریعے اسے یورپ کے ساحلوں تک پہنچایا جائے کچھ جلدی نہیں؟ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جو کہ اس سبراہ اجلاس کا پرنٹ میڈیا پارٹرنر بھی ہے، سابقہ کور کمانڈر آسف یاسین ملک کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آگے کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو کماتا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عبوری دور میں رہ رہے ہیں اور عالمی جغرافیائی سیاست تبدیلوں کے مراحل سے گذر رہی ہے۔ امریکا خود کو تنہا کرنے کے درپے ہے ، چین کے افریقہ میں قدم پڑ چکے ہیں جس کا سہرا بڑی حد تک مغربی دنیا کا اس براعظم کو نظرانداز کرنا ہے۔ لہذا سی پیک کے جراثیم پہلے سے یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصر افریقہ کے محور کے طور پر باقی ہے اور شمالی افریقہ کی ریا ستیں عرب بہار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری سے باہر آکر استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ جب استحکام آتا ہے تو مارکیٹ زور پکڑتی ہے، لہذا اس بات کی منطق بنتی ہے کہ یہاں آکر مستبقل کیلئے کام کیا جائے۔ جنرل مالک نے اتفاق کیا کہ پاکستان اور مصر کے درمیان جنگ سے متاثرہ مشرق وسطی ہے تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہاں کی افراتفری کمزور پڑتی جارہی ہے۔ انہوں کہا کہ پاکستان پہلے قدیمی علاقائی تعاون برائے ترقی آر سی ڈی کے بارے میں سوچ رہا ہے جو ایران اور ترکی سے ملاتا ہے، ہم پہلے سے اس طرف گامزن ہیں ، سعودی عرب پہلے ہی یمن کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کررہا ہے ، ٹرمپ کی سکس پلس گروپ سے اخراج کے بعد ایران بھی نئی سوچیں اختیار کررہا ہے جبکہ یورپ کی بھی اس خطے کے بارے میں سوچ تبدیل ہورہی ہے، لہذا جلدی کرنا بہت دیر کرنے سے بہتر ہے۔ مصر، پاکستان، چین اور دیگر جگہوں سے آنیوالے مقررین کے لئے ایجنڈا محض تجارت کے موضوع تک محدود نہیں۔ علاقائی ربط سازی کے علاوہ مستقبل کے سیکورٹی چیلنجز کے حوالے سے تعاون، انسداد دہشت گردی، سیکورٹی خدشات، میری ٹائم سیکورٹی، سائبر سیکورٹی اور ہجرت جیسے موضوعات پر بھی ان تین براعظموں سے آنیوالے مقررین اظہار خیال کریں گے۔

تازہ ترین