• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مایوس کن ضرور تھا لیکن حیران کن نہیں تھا جب بھارت نے یوٹرن لیا اور وزیراعظم عمران خان کی وزارتی سطح پر مذاکرات کی پیش کش قبول کرتے ہوئے 24گھنٹے کے اندر اپنے وعدے سے پھر گیااور بات چیت منسوخ کردی۔ اس طرح صورتحال برف پگھلنے کی امید کے بعد واپس پہلی والی سطح پر چلی گئی ہے۔ بھارتی بیانات سے لگتا ہے کہ انہوں نے بات چیت سے واپسی کا سخت ناگوار طریقہ اختیار کیا۔ اب جبکہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور انکی بھارتی ہم منصب سشماسوراج امریکہ میں ہوں گےاورامریکا نے بھی عمران خان کی تجویز کا خیرمقدم کیا ہے، دونوں میں وہاں ہاتھ ملانے تک کی توقع نہیں۔ بی جے پی کے ساتھ مسئلہ اسکی حکمت عملی نہیں بلکہ سیاسی نظریات ہیں جو نفرت کی بنیاد پر قائم ہیں اور اسی نفرت کی بنیاد پر اس نے گذشتہ انتخابات جیتے اور اپنی پوزیشن کو 2019میں بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان میں نفرت اور انتہا پسند گروپوں کی موجودگی کے باوجود عوام نے اعتدال پسند قوتوں کوووٹ دیا۔ اگر دونوں رہمانوں میں ملاقات ہوجاتی تو جامع امن مذاکرات کی بنیاد پڑ سکتی تھی جو کہ جی جے پی کے ایجنڈے کی نفی ہے۔ تاہم ابتدائی ردعمل کا پاکستان اور بھارت کے ذی شعور عناصر کی جانب سے خیر مقدم کیا گیااور دونوں طرف بات چیت موخر کرنے کی بجائے منسوخ پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہےاور تا حال یہ نامکمل ایجنڈا ہےتاہم بدترین حالات میں بھی عوام نے انتہا پسند سوچ اور گروپوں کو ووٹ نہیں دئے جبکہ بھارت کے بھارت کے بدلتے انتخابی مائنڈ سیٹ میں صورتحال مختلف ہے۔ بات چیت کی منسوخی کے بھارتی فیصلے نے امریکا سمیت متعدد کو حیران کیا ۔ امریکا نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی بھارت ہم منصب سشما سوراج کے درمیان مجوزہ بات چیت کا خیرمقدم کیا تھا۔ دونوں طرف فیصلے سے مایوسی ہوئی کیونکہ دونوں تنازعات کی نوعیت جانتے ہیں اور جیسا کہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ کیا بات چیت کے علاوہ بھی تنازعات حل کرنے کا کوئی ا ٓپشن ہے؟ بی جے پی کے سیاسی فلسفے اور وہ بھی نریندرا مودی جیسے انتہا پسند وزیراعظم کی قیادت میں کسی پیش رفت کی امید رکھنا ایک خواب ہے۔ جب بی جے پی نے مودی کو پہلی بار بطور وزیراعظم نامزد کیا تھا تو پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہوگئی تھی کیونکہ انکے سخت گیر موقف کی وجہ سے متعدد لوگ انکی نامزدگی کے خلاف تھے۔ ایسے وقت میں جب بھارتی وزیراعظم کو اپوزیشن کی جانب سے کرپشن کے الزامات پر سخت دباو کا سامنا ہے، پاکستان میں نئی حکومت اپنے انسداد کرپشن کے بیانیے کے باعث اقتدار میں آئی ہے۔ ان حالات میں یوٹرن لینے کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ 1)بھارتی آرمی کی جانب سے دباو ، 2)بی جے پی کے سخت گیر عناصر کی طرف سے پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے دباو ، 3) بھارت میں 2019میں ہونے والے انتخابات ، اور بے جے پی بھی اس مرتبہ اتنی پراعتماد نظر نہیں آتی جتنی پچھلے انتخابات میں تھی۔ اس کے علاوہ فرانس سے طیاروں کی خرید پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں۔ لہذا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کیوں بھارت اچانک ہائی پروفائل مذاکرات سے پھر گیا۔ ماضی کی پالیسیوں کے برعکس بی جے پی کے مائنڈ سیٹ نے پاکستان سے ہر قسم کے تعلقات بلاک کردیے ہیں جیسے کھیل اور ثقافتی تعلقات، عوام کے درمیان بات چیت وغیرہ۔ یہ مایوس کن ضرور تھا لیکن حیران کن نہیں تھا جب بھارتی وزیراعظم نریندرامودی کی حکومت نے یوٹرن لیا اور وزیراعظم عمران خان کی وزارتی سطح پر مذاکرات کی پیش کش قبول کرتے ہوئے 24گھنٹے کے اندر بات چیت منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ حلف لینے سے قبل عمران خان نے انتخابات میں اپنی فتح کے بعد پہلی تقریر میں بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کی بات کی تھی۔ وہ بالی وڈ اور سابق کرکٹرز سمیت اپنے متعدد بھارتی دوستوں کو بھی مدعو کرنا چاہتے تھے۔ تاہم بعد میں انہوں نے فہرست شارٹ لسٹ کی اور کپیل دیو، گواسکر اور سدھو کو مدعو کیا۔ سدھو پاکستان آئے جبکہ دیگر دو اپنی مصروفیات کے وجہ سے نہ آسکے تاہم خیرسگالی کے پیغامات بھیجے۔ جس طرح پاکستان میں سدھو کا استقبال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور اس موقع پر بھارتی اسٹار بھی جذباتی ہوگئے۔ سول اور ملٹری قیادت نے سدھو کی موجودگی کا خیرمقدم کیا لیکن حسب توقع انہیں آرمی چیف جنرل باجوہ کو گلے لگانے اور آزاد کشمیر کے صدر کے برابر بیٹھنے پر بھارتی میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے نہ صرف بھارتی ناقدین کو منہ توڑ جواب دیا اور اپنے موقف بلکہ پاکستان کے اس اقدام کا بھی بھرپور دفاع کیا۔ بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان کو بھارتی وزیراعظم مودی کی جانب سے خط موصول ہوا جس میں انہوں نے انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ اس خط سے ایک نئی شروعات کی امید پیدا ہو چلی۔ عمران خان نے مثبت طور پر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مذاکرات کی بات کی۔ یہاں تک کے انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائڈ لائن پر وزارتی سطح پر مذاکرات کی تجویز پیش کی۔ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی جانب سے مثبت رد عمل سامنے آیا ۔ یہ کہنا مشکل نہ ہوگا کہ وزیراعظم نے اس حوالے سے فوجی قیادت کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ بھارتی دفتر خارجہ کی جانب سے ابتدائی رد عمل کا پاکستان کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارتی جنرل اسمبلی اجلاس کی سائیڈ لائن پر مذاکرات کی پاکستانی پیشکش قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔ وزارت سطح پر بات چیت کو جامع مذاکرات کا پہلا مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے وقت جب دونوں جانب کے خارجہ امور کے دفاتر اس ہائی پروفائل اجلاس کی تیاریاں شروع کرنے والے تھے، بھارت کی جانب سے سفارتی یو ٹرن لیا گیا اور اس نے نہ صرف ملاقات منسوخ کردی گئی بلکہ نئے وزیر اعظم کے بارے میں سخت زبان استعمال کی گئی، یہ یقینی طور پر سفارتی نہیں تھی۔ جیسا کے توقع تھی، پاکستان نے بھارت کے ذہن کی تبدیلی پر مایوسی کا اظہار کیا ۔ لہذا ملاقات ہونے سے نہ ہونے تک کس چیز نے بھارتی حکومت کی پوزیشن تبدیل کی۔ بلی تھیلے سے اس وقت باہر آگئی جب بھارتی آرمی چیف نے بیان دیا کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ بندہ حیران رہ جائے کہ آیا انہوں نے بھارتی حکومت کو خبردار کیا تھا یا پاکستانی حکومت کو۔ اسی دوران انہوں نے پاکستان کو سخت دھمکی دے ڈالی۔ انکے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس نے حکومت پر مذاکرات کی منسوخی کے لئے دباو ڈالا ہوگا۔ پاکستان کا ابتدائی رد عمل محتاط تھا جس میں مایوسی کا اظہار کیا گیا ، بہتر ہوتا اگر عمران خان ذاتی ریمارکس نہ دیتے۔ ہم پہلے ہی دنیا کو باور کراچکے ہیں کہ خطے میں کون امن چاہتا ہے اور کون امن کے خلاف ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے بعد سوائے دفتر خار جہ کے کسی اور وزیر یا ترجمان کو بیان دینے کی ضرورت نہ تھی۔ بھارت عمران خان کو جانتا ہو یا نہیں، لیکن بھارتی عوام انہیں بخوبی جانتے ہیں کیوںکہ کرکٹ کی دنیا اور بالی وڈ میں انکے پرستاروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مذاکرات کے نتیجے میں اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو کم از کم تناو کی صورتحال کم ہوجاتی اور جامع مذاکرات کی راہ ہموار ہوجاتی۔ حیرانی ہوتی ہے جب جنوبی اور شمالی کوریا میں کئی دہائیوں پر محیط دشمنی کے باوجود بات چیت ہورہی ہے اور دونوں مذاکرات کی میز پر تنازعات کے حل کیلئے کوشاں ہیں تو پاکستان اور بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی نئی حکومت نے قدم اٹھایا ہے اور بھارت سے بھی اسی رد عمل کی توقع ہے کیوںکہ دونوں جانتے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں اور نہ ہی نفرت عوام کا مقدر بدل سکتی ہے، تو پھر کیوں نا بات چیت کی جائے۔

تازہ ترین