• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینٹ بازاروں سے منسلک رہائشی آبادیوں میں کمرشل سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں

راولپنڈی (اپنے نامہ نگار سے ) کینٹ ایریاز کے بازاروں سے منسلک رہائشی آبادیوں میں عملہ کی مبینہ ملی بھگت سے کمرشل سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں ، بعض بازاروں کے دکانداروں نے بغیر کمرشلائزیشن فیسوں کی ادائیگی اور بغیر منظوری کے دکانوں سے منسلک رہائشی گھروں کو دکانوں میں شامل کر لیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی ٹنچ بھاٹہ اور پیپلز کالونی کے بازاروں میں جاری ہے ، اس غیرقانونی کمرشل سرگرمیوں نے ارد گرد رہنے والے شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے مگر کینٹ بورڈ کے حکام اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، غیرقانونی کمرشل سرگرمیوں سے کینٹ بورڈ کے دونوں اداروں کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے مگر عملہ جو اس طرح کی غیرقانونی سرگرمیاں شروع کروانے میں مصروف ہے وہ دن بدن امیر ہوتا جا رہا ہے جبکہ راولپنڈی کینٹ بورڈ انتظامیہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگیوں کا رونا روتی رہتی ہے اگر اس طرف توجہ دی جائے تو ادارے کو کمرشلائزیشن فیسوں کی مد میں کروڑوں روپے مل سکتے ہیں ، ٹنچ بھاٹہ ، پیپلز کالونی ، مصریال روڈ ، صدر ، گوالمنڈی ، مریڑ حسن ، ڈھوک چراغدین ، کمال آباد ،شاہ بی بی روڈ، لالکڑتی ، ٹاہلی موہری ، ڈھوک سیداں روڈ ، صدر سے تمام ملحقہ بازاروں سے منسلک گلیوں میں شاید ہی کوئی گلی ایسی ہو گی جہاں پر کمرشل سرگرمیوں نہ ہو رہی ہونگی ، گوالمنڈی کے گلی محلوں میں غیرقانونی کھلی گاڑیوں کی ورکشاپس نے مکینوں کا جینا حرام کر دیا ہے ان ورکشاپس سے جہاں ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے وہاں لوگوں خصوصاً خواتین اور بچوں کیلئے گھروں سے باہر نکلنا بھی مشکل ہوچکا ہے مگر اس حوالے سے کینٹ بورڈ کے افسران بالکل توجہ نہیں دے رہے ہیں ، شہریوں کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی وصولیوں کیلئے تو کینٹ بورڈ کا عملہ آجاتا ہے مگر انہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا خصوصاً گاڑیوں کی کھلی غیرقانونی ورکشاپس سے انہیں نجات نہیں دلائی جاتی ، ٹنچ بازار سے منسلک گلیوں میں مبینہ غیرقانونی کمرشل سرگرمیوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے ، پورے کینٹ میں سب سے زیادہ خراب صورتحال ٹنچ بھاٹہ کی ہے جہاں پر کوئی بھی گلی ایسی نہیں ہو گی جہاں پر غیرقانونی کمرشل سرگرمیاں جاری نہ ہوں یہاں پربہت سی دکانوں میں لوگوں کے رہائشی گھروں کو بھی غیرقانونی طور پر دکانوں کا حصہ بنا لیا گیا ہے ، بہت سے رہائشی گھروں کو گوداموں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ، شہریوں کا کہنا ہے کہ عملہ کی مبینہ ملی بھگت سے ایسے مالکان سے کمرشل فیسوں کی وصولی بھی نہیں کی گئی ہے اگر اس کے جائزہ کیلئے ایک غیرجانبدار کمیٹی تشکیل دیدی جائے تو حقائق سامنے آ سکتے ہیں ، پیپلز کالونی کی گلیوں میں شادی ہالز اور پوری پوری مارکیٹیں بن چکی ہیں اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ، بعض رہائشی گھر بھی مارکیٹوں میں بدل دیئے گئے ہیں ، کینٹ بورڈ کے افسران اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے باہر نہیں نکلتے جس کے نتیجہ میں فیلڈ سٹاف کی موجیں لگی رہتی ہیں اور ان کی مرضی سے گلیوں میں دکانیں بنتی جا رہی ہیں ، ڈھوک چراغدین بازار سے منسلک گلیوں میں بھی دکانیں کھلی ہوئی ہیں ، مصریال روڈ پر بھی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے ،بازار سے منسلک گلیوں میں دور دور تک غیرقانونی کمرشل سرگرمیاں جاری ہیں ،ڈھوک سیداں روڈ اور صدر کے بازاروں سے منسلک رہائشی گھروں میں کمرشل سرگرمیاں عروج پر ہیں ، ایسے مالکان جن کی عمارتوں میں کمرشل سرگرمیاں جاری ہیں وہ عملہ کی مبینہ ملی بھگت سے ہائوس ٹیکس بھی رہائشی گھروں کا ادا کر رہے ہیں ، لالکڑتی میں بھی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے ، یہاں پر بازار سے منسلک گلیاں بھی بازاروں کی شکل اختیار کر چکی ہیں ، بعض مقامات پر دیواروں میں بھی چھوٹی چھوٹی دکانیں کھلی ہوئی ہیں ، ڈھیری حسن آباد ، ٹاہلی موہری کی گلیوں میں دکانیں کھلی ہوئی ہیں ، شہریوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسے کوئی ادارہ اس غیرقانونی کمرشل سرگرمیوں کو روکنے کیلئے موجود ہی نہیں ہے ، انہوں نے ڈائریکٹر جنرل ایم ایل اینڈ سی اور سٹیشن کمانڈر راولپنڈی کی توجہ ان اہم مسائل کی طرف دلاتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں کینٹ بورڈز کے باہر کے افسران اور عملہ پر مشتمل ان غیرقانونی سرگرمیوں کے جائزہ لینے کیلئے اگر ایک غیرجانبدار کمیٹی تشکیل دیدی جائے تو اس سے نہ صرف کمرشلائزیشن فیسوں کی مد میں دونوں کینٹ بورڈز کو کروڑوں روپے کمرشلائزیشن فیسوں کی مد میں ملیں گے وہاں ان غیرقانونی سرگرمیوں سے ان بازاروں سے منسلک آبادیوں کے مکینوں کو درپیش مشکلات کا بھی اندازہ ہو سکے گا ، ادارے میں موجود ان کالی بھیڑوں کی بھی نشاندہی ہو سکے گی جن کی وجہ سے آئے روز ایسی غیرقانونی کمرشل سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔دونوں کینٹ بورڈز کے ایگزیکٹو افسران کا اس حوالے سے موقف جاننے کیلئے فون کیا گیا مگر انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔
تازہ ترین