• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن جو اس وقت نوے (90) کے پیٹے میں تھے اور بقول صحافیوں تب بھی ”فٹ“ تھے وہ تقاضہ عمر کے علاوہ اور کوئی کمزوری محسوس نہیں کرتے تھے لیکن یہاں جو واقعہ میں بتانے چلا ہوں یہ اس وقت کا ہے جب یہی امریکی صدر لوہے کے راڈ کی طرح سیدھا کھڑا ہوتا تھا اور اس کے اعضاء میں کسی بھی قسم کی کمزوری واقع نہ ہوئی تھی۔ امریکی میگزین پریڈ Parade نے صدر امریکہ رونلڈ ریگن سے ایک انٹرویو لیا۔ اس نے صدر امریکہ کی صحت کے اصولوں اور ان کی ورزش کے بارے میں ان سے سوالات کئے۔ ”جناب صدر ! آپ اپنی غذا کے بارے میں بتائیں۔ کیا آپ کوئی خصوصی غذا کھاتے ہیں جو آپ کی شاندار صحت کا راز ہے“ ؟ جواب میں اس وقت کے امریکی صدر نے کہا۔ ”واقعہ یہ ہے کہ میں کسی خاص غذا کی پابندی نہیں کرتا اور نہ میری کوئی مرغوب چیز ہے لیکن میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ صحرا میری کمزوری ہے“۔ ”صحرا“ ؟ انٹرویور نے تعجب کے ساتھ کہا۔ امریکی صدر نے جواب دیا ”ہاں ! عرب جیسا صحرا، جس کے ساتھ تیل بھی ہو“۔
تیل سے مالا مال عرب ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے، خدا کی دی ہوئی دولت بھی افراط کے ساتھ ان کے پاس موجود ہے مگر حال یہ ہے کہ ایک ”کافر اور ظالم“ حکمران فخر کے ساتھ کہتا تھا مسلم ملکوں کی قدرتی دولت کو اپنی خوراک بنانا یہی میری غیر معمولی صحت کا راز ہے۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لئے ایک انتباہ ہے مگر مقام افسوس ہے کہ اس کے تدارک اور توڑ کے لئے ابھی تک کسی مسلم ملک نے حکمت عملی یا پالیسی ترتیب نہیں دی۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی پیٹرول ہے جو کہ بہت جلد ختم ہونے والا ہے لیکن حکمرانوں نے کسی سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ آج بھی پیٹرول پر کلی انحصار کرتے ہیں اور آمدنی کے دوسرے ذرائع تلاش کرنا حماقت سمجھتے ہیں۔ دنیا کے تمام ملکوں اور قوموں کی تاریخ عروج و زوال سے عبارت ہے مگر کبھی کبھی تبدیلی اس برق رفتاری سے واقع ہوتی ہے کہ پوری دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ یہی صورت حال خلیج عرب اور افریقہ کے مسلم ممالک کی بھی ہے جو پچاس سال قبل تک خواب و خیال میں بھی نہ سوچ سکتے تھے کہ اتنی جلدی وہ عالم عرب ہی کے نہیں پوری دنیا کے امیر ترین اور قابل توجہ ممالک بن جائیں گے۔ آج یہاں کے ریگستان اور صحرا کالا سونا اگل رہے ہیں اور ہر طرف دولت کی ریل پیل ہے، آج تیل پیدا کرنے والے مسلم ملکوں کی آمدنی کا 75 فیصد واحد ذریعہ صرف پیٹرول ہے مگر وہاں کے عوام اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پیٹرول پر ہمیشہ انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ پیٹرول کے بہتے ہوئے چشموں کے خشک ہونے سے پہلی سبز اور سفید انقلاب لانے کی تیاریاں کی جائیں۔ آج بظاہر ساٹھ ممالک میں مسلم حکومت ہے مگر ملت اسلامیہ پر جو کڑا وقت آ پڑا ہے اس سے قبل ایسا وقت کبھی نہ آیا تھا۔ گزشتہ فروری میں یو این او کی ایک رپورٹ میں سعودی عرب کے بارے میں ایک مضمون سپرد قلم کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ انگلینڈ میں اسلحہ بنانے والی سب سے بڑی کمپنی جس کا نام ”برٹش ایروسپیس“ ہے کا 25 فیصد اسلحہ بنانے کا کاروبار محض سعودی عرب کی دولت پر منحصر ہے۔ برٹش ایرو سپیس جس کے پانچ ہزار ملازمین اور ماہرین جسے سعودی حکومت نے نہایت اعلیٰ تنخواہوں پر ملازم رکھا ہے اس کے اسلحے کی تجارت کی نگرانی کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب کی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں پچاس فیصد اضافہ کردیا ہے کہ تیل سے مالا مال اس ملک کی مالی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ قرضوں کی بھرمار کے علاوہ تیل کی قیمت میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عراق، کویت جنگ کے بعد سعودی عرب میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ مغربی ممالک سے قیمتاً اسلحہ خرید سکے یہی وجہ ہے کہ چھ لاکھ بیرل پٹرول برطانیہ کو دیا جاتا رہا ہے اور اندرون ملک یہ عالم ہے کہ سالانہ بجٹ میں 15 فیصد کٹوتی کے باوجود بجٹ کا خسارہ 100 فیصد بتایا گیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کی ایک حالیہ اشاعت میں یہ بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب اور عرب امارات کی سالانہ آمدنی اب محض 230 بلین ڈالرز رہ گئی جبکہ یورپ کے بیشتر ممالک کی سالانہ آمدنی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علاوہ ازیں عربوں کے سرمایہ میں سے 900 بلین ڈالرز مغربی ممالک اور امریکہ کے بینکوں میں جمعہ شدہ ہیں جنہیں مغربی ممالک اپنی ترقی کے لئے بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ اقتصادیات کے علاوہ سیاسی طور پر بھی عرب ممالک ”پس ماندہ“ ہیں۔ 1971ء میں جب برطانیہ نے یہ اعلان کیا کہ اس سال کے آخر تک اس کی فوجیں پورے خلیج عرب کو خالی کردیں گی اس اعلان کے بعد خلیج عرب کی نو ریاستوں قطر، بحرین، ابوظبی، دبئی، شارجہ، عمان، بحیرہ، راس الخمیہ، اور ام القوین کے سربراہوں نے ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق بنا کر برطانوی فوجوں کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی
لیکن بہت سے خفیہ اور طویل اجلاسوں، سعودب عرب، کویت اور برطانیہ کی کوششوں کے باوجود اتحاد کی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی آخر یہ سات عرب ریاستوں نے متحدہ عرب امارات کا وفاق بنا لیا مگر قطر اور بحرین نے اس میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور اپنی آزاد مملکت کا اعلان کردیا۔ یہ آزاد مملکت لاہور کے معروف محلے گوالمنڈی سے بھی چھوٹی ہیں اور دولت کا یہ عالم ہے کہ قطر جیسے ننھے منے ملک کے تیل کے محفوظ ذخیروں کی مقدار 85 ملین ٹن سے بھی زائد ہے۔ بہت عرصہ پہلے امریکی جریدہ ٹائمز نے لکھا تھا کہ ”دنیا کی اقتصادیات کے سارے راستہ ریاض سے گزر کر جاتے ہیں“۔ اس ریاض اور دوسری خلیجی ریاستوں کا اضافی سرمایہ نو سو بلین ڈالرز مغربی ملکوں اور امریکہ کے بنکوں اور کھاتوں میں پڑا ہے جس میں سے ایک تہائی سرمایہ ”معاہدے“ کے تحت کبھی نہیں نکالا جاسکتا اور آج اس جمع شدہ سرمائے سے مغربی ممالک کے ماہر اقتصادیات پوری دنیا کی اقتصادیات کو کنٹرول کر رہے ہیں اور ادھر ہمارے ”ریاض“ کا یہ عالم ہے کہ اس کے محفوظ ذخائر صرف چھ بلین ڈالرز رہ گئے ہیں جبکہ ہمارا ”دشمن نمبر ایک“ بھارت اپنے محفوظ ذخائر میں 35 بلین ڈالرز مزید اضافہ کرچکا ہے۔
میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے
تازہ ترین