• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو دھمکیاں دینے کی بجائے بھارتی آرمی چیف اپنا گھر ٹھیک کرلیں

لاہور(صابرشاہ)اگرچہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت، لیفٹیننٹ جنرل (ر) لکشمن راوت کے بیٹے، نےپاکستان کو حیران کردینے والی کارروائی کی دھمکی دی ہے، لیکن ابھی انھیں ان کی فوج کو پریشان کرنے والےعوامل کےبارےمیں پریشان ہونا چاہیئے۔ ’’جنگ اورجیوٹیلی ویژن نیٹورک‘‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق سے ظاہرہوتاکہ مثال کے طورپر بھارتی فوج میں مسلسل ہونے والی خودکشیاں خوفناک ہیں۔ 2014سے 31جولائی 2017کے درمیان کُل 310بھارتی فوجیوں نے ارادتاً اپنی زندگی کاخاتمہ کیا۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘کے8اگست2017کےشمارے کے مطابق بھارتی وزیرمملکت برائےدفاع نے سینٹ کی بتایا کہ 2014میں تقریباً84فوجیوں نے خودکشی کی جبکہ 2015اور2016میں یہ تعداد بالترتیب 78 اور 104 ہوگئی۔ اور31جولائی 2017تک خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد44تک رہی۔ 20 اگست 2017 کے ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کےشمارے نے لکھا:’’بھارتی فوج کے جوانوں کو پاک بھارت اور بنگلہ بھارت سرحد پرمشکل اور سخت موسم والے علاقوں میں طویل مدت کیلئے تعینات کردیاجاتاہے، جہاں وہ اپنے خاندانون کو ساتھ نہیں رکھ سکتے۔‘‘ اسی طرح بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کواپنے ملک کی مسلح افواج کےبارےمیں زیادہ پریشان ہونا چاہیئےجسے 60ہزارجوانوں کی کمی کاسامناہےاورصرف فوج 27ہزار خالی اسامیوں کےساتھ پہلےنمبرپر ہے۔ 27دسمبر2017 کے ’’اکنامک ٹائمز‘‘ کےشمارے کے مطابق ملک کے وزیردفاع نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا کہ فوج، نیوی اور بھارتی ائیرفورس میں افسران کی کل کمی 9259ہےجبکہ نچلے درجے کے افسران کی تعداد50363ہے۔ بھاری بھرکم دفاعی بجٹ اور پیسوں کی قلت کے ساتھ بھارتی فوج : اکنامک ٹائمز کے 15فروری 2018کےشمارے کے مطابق اور لندن سے نکلنےوالے ’’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز‘‘ کی حالیہ ’’ملٹری بیلنس2018‘‘ رپورٹ کےمطابق 52ارب20کروڑ ڈالرکا بھارتی دفاعی بجٹ دنیاکےپہلےپانچ دفاعی بجٹوں مین شامل ہے اوررواں سال اس نےبرطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لیکن اتنے بڑے دفاعی بجٹ کے باجود بھارتی فوج کو پیسوں کی کمی کاسامناہے۔ 14مارچ2018کو’’اکنامک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ میں کہاگیا: ’’ بھارتی فوج نے پارلیمانی سٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاع کو بتایاکہ اس کےپاس، زیرتکمیل سکیموں، ایمرجنسی خریداری اوردس دن کی شدیدجنگ کیلئےاسلحہ اورچینی سرحد کے ساتھ سٹریٹجک روڈزکیلئےپیسےنہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والے ایک رپورٹ کے مطابق یہ ڈویلپمنٹ فوج کےوائس چیف لیفٹیننٹ جنرل سرتھ چاند نےاپنے طورپرکمیٹی کے ساتھ شیئرکیں۔ جنرل چاند نے یہ بھی کہاکہ دفاعی بجٹ نے ہماری امیدیں ختم کردیں اورافراط زرکےمقابلے میں یہ معمولی سااضافہ ہے اور ٹیکسز کے مطابق نہیں ہے۔‘‘ لہذا یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بھارت فوج کی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب رہااورنہ اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کرسکا۔ 7کروڑ30لاکھ بھارتی شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہےہیں۔ 27جون 2018کو ’’ٹائمزآف انڈیا‘‘نےامریکی ’’بروکنگ انسٹیٹیوٹ‘‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیا کہ بھارت میں 7کروڑ 30لاکھ شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور یومیہ 1.90ڈالر کما تے ہیں، نائیجریا کےبعدیہ دوسرے نمبر پر ہے جہاں 8کروڑ70لاکھ افراد کی غریب ہے۔ حال ہی میں یکم ستمبر2018کی برطانوی اخبار ’’ دی انڈیپنڈنٹ‘‘ بھارت میں ٹوائلٹ کی کمی پر روشنی ڈالتا ہے، 11کروڑ10لاکھ ٹوائلٹس کیلئے20ارب ڈالر مختص کیے گئے: ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ کہتا ہے: وزیراعظم نریندرا مودی کا20ارب ڈالر کا’’کلین انڈیا‘‘ مشن کا مقصد5سال میں 11کروڑ10لاکھ لیٹرینیں تعمیرکرناہے۔ ہیلتھ، تحفظ اور لاکھوں کروڑوں بھارتیوں کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنےکے وعدوں کےعلاوہ قومی صفائی کی مہم کےباعث کنکریٹ بلڈنگ میٹریل کی فروخت 81فیصدبڑھ گئی ہےاورباتھ روم اورسینیٹری کے سامان کی فروخت میں 48فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘ بی بی سی کےمطابق مئی2012 میں تقریباً 120کروڑکی بھارتی آبادی میں سے آدھی آبادی کےپاس گھرمیں لیٹرین نہیں ہےلیکن اس سے زیادہ لوگوں کے پاس موبائل فون ہے۔ اور مردم شمارے کے اعدادوشمار سے پتہ لگتاہے کہ بھارت میں 2کروڑ10لاکھ افرادکو ایچ آئی وی ہے۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کو اس حقیقت کے بارے میں بھی پریشان ہونا چاہیے کہ ان کے سپاہی فوڈ کوالٹی، غیرانسانی سلوک اور کام کرنےکےسخت حالات سوشل میڈیا پر جاری کررہے ہیں جیسا کہ یکم جنوری 2017کو ’’ہفنگٹم پوسٹ‘‘ نے رپورٹ کیاتھا، جو ایک معروف امریکی نیوز ویب سائٹ بلاگ ہے۔ را سے علحیدگی: پاکستان کوخطرات سے دوچار کرنے کی بجائے بھارتی آرمی چیف کو یہ تجزیہ کرنے کیلئےتنہائی میں وقت گزارنے کی ضرورت ہےکہ ان کے ملک کی سب سے بڑی جاسوس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ(را)نے کچھ ذلت آمیز غلطیاں اورنیشنل سیکیورٹی کی ناکامیاں کی ہیں۔ چند سال قبل نامور بھارتی سکالر ڈاکٹرپریم مہادیو جو زیورچ میں ’’سنٹر آف سیکیورٹی سٹڈیز پر’’گلوبل سیکیورٹی ٹیم‘‘ کے ساتھ بطور ریسرچر کام کررہے ہیں، انہوں نے اپنی کتاب ’’دی پولیٹکس آف کائونٹرٹیررازم اِن انڈیا‘‘ میں کہاتھاکہ امریکی سی آئی اے کی جانب سے بھارتی انٹلیجنس میں کام کرنے والوں کو بھرتے کیے جانے کے خدشے کے پیش نظرنئی دہلی نےواشنگٹن ڈی سی کے ساتھ ایجنسیوں کی سطح پر رابطےکاراستہ اپنایا۔ پریم مہادیو کی کتاب میں انکشاف کیاگیاکہ 2001کےبعد سے امریکی سی آئی اے کی جانب سےرامیں مداخلت کے دو کیسز ہوئے۔ بھارتی سکالر نے مزید کہاکہ 1968میں ایجنسی کی تخلیق کےبعد آرام دہ طرزِ زندگی کی تلاش میں را کےکم ازکم نوافسران چھٹی لیےبغیربیرونِ ملک چا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افسران نے مغربی یورپ یا شمالی امریکامیں تعیناتی کے دوران علحیدگی اختیار کی۔ کتاب میں کہاگیا کہ سکندرلال مک کی علحیدگی خاص طورپر نقصان دہ تھی، وہ راکے سربراہ رامیشور ناتھ کائوکے ساتھی تھے، مزید برآں ملک 1970میں الگ ہوئےجب امریکا میں تعینات تھے اور مبینہ طورپر ان کے پاس کافی حساس نوعیت کی معلومات تھیں۔ تب جون 2004میں را کے ایک اہم اہلکار رابندرسنگھ امریکا میں ہی رہ گئے تھے۔ وہ را کے جوائنٹ سیکریٹری اورسائوتھ ایسٹ ایشیاءڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ کافی عرصے تک نگرانی میں رہنے کے باوجود رابندر کچھ حساس فائلوں کے ساتھ را کو چھوڑنے میں کامیاب ہوئےجو انھوں نے مبینہ طورپر نئی دہلی میں را ہیڈ کوارٹرزسے حاصل کی تھیں۔ را کے ایک سابق جاسوس آر کے یادو نےاپنی کتاب ’’مشن را‘‘ میں اس حقیقت کو بے نقاب کیاہے کہ اگرچہ رابندرسنگھ اور دیگر اعلیٰ افسران کےساتھ امریکی سی آئی اے براہِ راست ملوث تھی لیکن کم ازکم راکے آٹھ دیگر افسران خفیہ طورپر بیرون ملک ان کی جاسوس ایجنسیوں کی مدد سے امریکا اور کینیڈا چلےگئے۔ ایک اور نامور بھارتی اخبار’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے28ستمبر 2009 کےشمارے میں راکیلئےچھ سال تک کام کرنے والے ایک بنگلہ دیشی شہری کی ایک خبر شائع کی گئی۔ 1980کے اوائل میں کے وی یونی کریشننان کو راکے کولمبو سٹیشن تعینات کیاگیا ۔ مبینہ طورپر سی آئی اے نے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا۔ را اور بھارتی میڈیا نے الزام لگایاکہ 1985اور 1987کے درمیان جب یونیکرشنان کو چنائی سٹیشن کاچیف مقرر کیاگیا اور وہ سری لنکن آپریشنز دیکھ رہاتھا تو اس نے بھارتی حکومت کی سری لنکاکےساتھ امن معاہدےپر کی معلومات اپنے ہینڈلز کوفراہم کیں۔ اسے 1987میں پکڑا گیا، جیل میں دالاگیا اور نوکری سے برخاست کردیاگیا۔ راکے کچھ تاریخی فاش غلطیاں: جنگ اور جیوٹیلی ویژن کی جانب سے کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1968میں اپنے آغاز کےبعد سے را نے نہ صرف کافی اہم غلطیاں کی ہیں بلکہ بعض اوقات ان کے بڑے بول کے باعث بھی متعلقہ ممالک کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ را کی بڑی غلطیوں کا پتہ لگاتے ہوئےمعلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی تخلیق میں اہم کردارادا کرنےکےباوجود بھارتی خفیہ ایجنسی اسے بھارت میں شامل کرنےکاکوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ یہ شیخ مجیب الرحمن کو بھی قتل ہونے سےنہ بچاسکی۔ حتٰی کہ اسے سازش کا پہلے سے علم تھا۔ یہ را ہی تھی جس نے 1975 میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی جانب سے نافذ کردہ ایمرجنسی کی حمایت کی تھی۔ تاریخ نے بعد میں ثابت کردیا کہ یہ ایمرجنسی بڑی غلطی تھی اور اندراگاندھی کو ان کی عوامی مقبولیت کے بارے میں غلط اندازے فراہم کررہی تھی۔ سکھوں کے خلاف بلوسٹار آپریشن کے دوران جون 1984میں را دوبارا ناکام ہوگئی تھی کیونکہ یہ امرت سر گولڈن ٹیمپل میں سکھ کمانڈر بھنڈراوالے کی فورسز کی طاقت کااندازہ نہ لگا سکی۔ جسے پانچ گھنٹے کا آپریشن کہا جارہاتھا بعد میں وہ پانچ دن طویل ہوگیا اور بھارتی فوج کو بغاوت کچلنے کیلئے ٹینکوں کو لانا پڑا۔س اس سے بھارتی فوج کوکافی نقصان پہنچا اور یہ سب را کے غلط اندازوں کے باعث ہوا۔ بعد میں اندراگاندھی کو بھاری قیمت چکانا پڑی اور انھیں سکھ باڈی گارڈ نے 1983میں قتل کردیا۔ 1991میں سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھی چنائی میں تامل ٹائیگر کا شکاربننے سے را نہ روک سکی۔ راجیو کو ایک عوامی ریلی میں خودکش حملے میں قتل کیاگیا اور خاتون قاتل ان تک بغیر کسی سیکیورٹی چیک کے پہچننے میں کامیاب ہوگئی۔ ہم سب دسمبر2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہوئے حملے سے بھی واقف ہیں۔ اکتوبر2005میں دہلی بم دھماکے، 2011میں دہلی کے دھماکے اور 1993،2002کےدوران ممبئی میں لاتعداد دہشتگرد حملے ہوئے، 2003،2006،2008 اور2011 کے واقعات را انٹلیجنس کی ناکامی کی بدترین مثالیں ہیں۔ 2010اور2012میں پونے شہر میں دوبارحملے ہوئےاور اب تک جموں کشمیرمیں ہزاروں افراد مر چکے ہیں۔ 7نومبر2008میں 94سال پرانے امریکی تھنک ٹینک ’’کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ نے کہا:’’بھارت کی انٹلیجنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ کو کافی عرصے سے ہمسایوں کے معاملات میں مداخلت کے الزامات کاسامناہے۔‘‘ 4900اراکین پر مبنی ’’کونسل آف فارن ریلیشنز‘‘ جس کی نمائندگی سینئرامریکی سیاستدان ، درجنوں وزرائےخارجہ، سی آئی اے ڈائریکٹرز، بینکرز، وکلاء، پروفیسرز اور سینئرصحافی کرتےہیں ، ان کی رائے تھی :’’افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے سفارتی کاموں کو اسلام آباد راایجنٹس کے طورپر دیکھتا ہے جو پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ یہ را پرافغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان صوبے کے علحیدگی پسندوں کو ٹریننگ دینے اور مسلح کرنے کاالزام لگاتاہے۔ را ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور بدلے میں جولائی 2008میں کابل میں بھارتی سفارتخانے پرہوئے حملے کیلئے آئی ایس آئی پرالزام عائد کرتی ہے۔‘‘ آئی ایس آئی ان الزامات کی تردید کرچکی ہے۔ 1975سے1977تک بھارتی ایمرجنسی کےدوران ’’جنتاپارٹی‘‘را پر اپوزیشن کو دھمکیاں دینے اور خوفزدہ کرنے کاالزام لگاتی ہے۔‘‘ 1975-77کی ایمرجنسی 21ماہ کا وہ دورانیہ ہے جب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ را ک بانیوں میں سے ایک بہوکوتمبی رامن اپنی کتاب ’’دی کائوبوائزآف را‘‘ میں لکھتے ہیں:’’یہ بات عام تھی کہ ایمرجنسی کے دوران را کافی غلط کاموں میں ملوث تھی۔ یہ سوچ بیوروکریسی کے کافی حصوں بشمول فارن سروسزمیں بھی مقبول تھی۔‘‘ بہوکوتمبی رامن ، جنہوں نے کیبنٹ سیکریٹریٹ کے ایڈینشل سیکریٹری کےطورپربھی خدمات سرانجام دی ہیں اور را کے کائونٹر ٹیررازم کے سربراہ بھی تھے وہ کہتے ہیں: ’’راخفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسی کے طورپر بھی ناکام رہی کیونکہ اگست1975میں شیخ مجیب الرحمان کاقتل اور بعد میں بنگلہ دیش میں ہونی والی پیش رفت جن کے باعث وہاں بھارتی اثرورسوخ کم ہوگیا۔‘‘ مقبوضہ کشمیر میں لگی آگ کو اپنے خون سے ٹھنڈاکرنے والی بھارتی فوج دنیا کی دوسری بڑی فوج ہے جس میں 1237117ایکٹو فوج اور 960000ریزرو فوج ہے جوبھارت بھر میں 53کنٹورمنٹس اور 9فوجی اڈوں پر تعینات ہے۔ لیکن کئی بار اس کے افسران اس کے نقائص کا چرچہ کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کو غلطیوں کے باعث کافی عرصے تک نقصان اٹھانا پڑا: وزیرِدفاع نے تو یہاں تک دعویٰ کردیاتھاکہ بھارتی نیوکلیئرٹیسٹ صرف کان کنی، تیل اور گیس کے مقاصد کیلئے تھا تاکہ زیرِ زمین پانی کے ذخائرکوتلاش کیاجائے،دریائوں کارخ موڑا جائے اور ٹیکنالوجیکل علم کیلئےتھا۔‘ وہ 1999میں کندھار ہائی جیکنگ کے واقعے سے نمٹنے کے طریقے پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے کافی عرصے تک بھارتی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی رہے تھی کیونکہ آٹھ دن تک جاری رہنے والے واقعے کااختتام اس پر ہوا کہ بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرنے تمام یرغمالیوں کے بدلے تین کشمیری جنگجوبشمول مولانا مسعود اظہر کورہاکردیا۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیئے کہ کس طرح سے بلیک لیبل وسکی کو بھارتی دفاعی راز کے بدلے استعمال کیاگیا۔ اپنی حالیہ کتاب ’’ ایناٹومی آف ٹریئر: ہسٹری آف ایسپائینیج اینڈ بیٹریل،‘‘ میں ایوارڈ یافتہ بھارتی صحافی مائیکل سمتھ نے انکشاف کیاہے کہ کس طرح بلیک لیبل وسکی اور مہنگی کال گرلز کا استعمال کیاگیا تاکہ بھارتی اٹامک انرجی پروگرام، ملٹری سیٹلائٹس، سرکاری الیکٹرونک سسٹم اور ملک کے دفاعی منصوبوں بشمول فوجی طیاروں، جنگی طیاروں، ہتھیار اور خارجہ پالیسی جن میں چین اور پاکستان سے متعلق پالیسی بھی شامل ہے اس سے متعلق اہم معاملات کے دستاویزات حاصل کیے جائیں۔ سمتھ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ جاسوس گروہ کو بالآخر1985میں بے نقاب کیاگیا جب تفتیش کاروں نے بڑی تعداد میں خفیہ دستاویزات جن میں وزیراعظم اور وزارتِ دفاع کے سیکریٹریٹ کی تقریباًتمام فائلوں کی فوٹو کاپی شامل تھی وہ قبضے میں لی گئی۔ اسی دوران بڑی تعداد میں سینئرسول سرونٹس بشمول وزیراعظم آفس کے تین اراکین کو گرفتارکرلیاگیا۔ اگلے دن اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے پارلیمںٹ میں کھڑے ہوکر سازش کو بے نقاب کرنے کا اعلان کیا جس میں حکومتی رازدیگرممالک کو فروخت کیےجانےتھے ۔ فرانسیسی ڈپٹی ملٹری اتاشی لیفٹینٹ کرنل ایلین بولے کو بھارت نے فوری طورپر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کیے۔ اسی دوران فرانسیسی سفیر سرگئی بوڈیواکس کوبتایاگیا کہ انھیں بھی ٹھیک کام نہیں کررہے اور اگرچہ بھارتی انتظامیہ انھیں بے دخل نہیں کرے گی انھیں خود ایک ماہ میں ملک چھوڑنے پرغورکرناہوگا۔ اور آخری لیکن اہم بھارتی عدالتِ عظمیٰ کا 6ستمبر2018کافیصلہ جس میں انگریز دور کا قانون ختم کردیا جس کےمطابق ہم جنس پرستی غیرقانونی تھی، اگر بھارتی آرمی چیف نے فری پریس کشمیر کی رپورٹ کوپڑھا ہے تو انھیں اس پربھی پریشان ہوناچاہئیے۔ فری پریس کشمیر نے رپورٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ہم جنس پرستی کوقانونی قراردینے کے فیصلے نے فوج کوپریشان کردیاہے کہ کیا کہ بھارتی ڈیفنس پرسنل پر بھی لاگو ہوتا ہے یانہیں۔ ویکلی اخبار مزید لکھتا ہے: اس قانون میں ہم جنس پرستی کو قابلِ سزا جرم قراردیاہے اگرچہ یہ واضح طورپر نہیں کہاگیا۔ اس سے قبل بھارتی آرمی چیف نے کرنلوں اور ان کی بیگمات سےدہلی میں مانک شاہ میں ملاقات کےدوران کہاتھاکہ ’’اخلاقی پستی‘‘ ناقابلِ معافی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے ’’اخلاقی پستی‘‘ کی تعریف پرسوال اٹھ گئےہیں۔ آرمی ایکٹ 1950کی شق45 آفیسرزکے’’نامناسب روائے‘‘ کے بارے میں یوں بات کرتی ہے۔ شق 46 کہتی ہے کہ نامناسب رویےکامجرم یعنی ، ظالم، غیرمہذب یا غیرفطری رویئےکامرتک کوئی بھی شخص کورٹ مارشل کاسامنا کرےگا اور اسے سات سال تک قید ہوسکتی ہے۔‘‘ فری پریس کشمیرمزید لکھتا ہے:’’ ایئرفورس ایکٹ1950کی شق 46(a) بھی یہ ہے کہتی ہے۔ نیوی ایکٹ 1957 کہتاہے کسی بھی نامناسب رویےکامرتکب شخص کو دوسال تک جیل ہوسکتی ہے۔ ذرائع انکشاف کرتے ہیں کہ یہ قوانین کس طرح فوج پر اثرانداز ہوتے ہیں اس کیلئے فیصلے کو پڑھنا ضروری ہے۔ چند وکلاء کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ فوج میں بھی ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے گا۔  

تازہ ترین