• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اصغر خان کیس نے نہ صرف پاکستان کی تاریخ کے شرمناک مخفی حقائق کو دنیا کے سامنے اُجاگر کردیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ کون کون سے طاقتور عناصر پاکستان کی حقیقی اسٹیبلشمنٹ (ہیئت مقتدرہ) کی تشکیل کرتے ہیں اور اس اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں۔ اصغر خان کیس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی ٹھوس تعریف کرنا شاید اس قدر آسان نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے جن جن عناصر نے کوششیں کیں‘ تقریباً وہی عناصر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی ترکیب کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض دیگر عناصر بھی ہیں جو اس کیس کی لپیٹ میں نہیں آئے لیکن وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے جو طاقتور اور استحصالی طبقات‘ گروہوں اور عناصر پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ اسٹیبلشمنٹ ہر جگہ عوام کی سیاسی جدوجہد کو کچلنے اور عوام کی مقبول سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے لیکن اصغر خان کیس میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی ”نیک نامی“ پر جس طرح ضرب پڑی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ اُس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس اسٹیبلشمنٹ کی اجتماعی دانش ایک مخصوص گروہی مفادات کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکی ہے لہٰذا وہ ہمیشہ تنگ نظری سے کئے گئے اپنے فیصلوں کے پیدا کردہ بحرانوں اور اپنے اندرونی تضادات کا شکار رہی ہے۔ خود کو مشکلات سے نکالنے کے لئے وہ ملک کو مشکلات میں پھنسا دیتی ہے اور خود مزید مشکلات میں پھنس جاتی ہے۔ آج پھر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس مخمصے میں ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ کامیابی سے کس طرح روکا جائے۔ اگرچہ حالات اب 1990ء والے نہیں ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد اور اہداف وہی ہیں اور پاکستان کے عوام میں خوف اور بے یقینی بھی ویسی ہی ہے۔
سب سے بڑی غلطی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے یہ ہوئی ہے کہ اُس نے اپنی سیاسی ٹیم کو مضبوط نہیں ہونے دیا اور اُس نے آنے والے وقت کی تیاری نہیں کی۔ اب بھی اُس کے پاس وہی پرانے آپشنز ہیں کہ وہ انتخابات پر اثر انداز ہو اور انتخابی نتائج تبدیل کرکے اپنی مرضی کے لوگوں کو اقتدار میں لے آئے اور یہ شور مچائے کہ پاکستان میں جمہوری عمل جاری و ساری ہے یا پھر کوئی فوجی جرنیل براہ راست اقتدار پر قبضہ کرلے۔ اسی لئے اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ یا اُس کی تنگ نظر گروہی سوچ کے پرچارک دانشور اپنے ”تجزیوں“ میں یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ اگر سیاستدان خود الگ نہ ہوئے تو پھر فوج مداخلت کرسکتی ہے۔ ایسی باتیں اس لئے کہی جارہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کوئی مضبوط سیاسی قیادت نہیں بناسکی ہے یا اُس نے خود نہیں بننے دی ہے اور اُس نے پیپلز پارٹی کی مخالف کوئی ایسی سیاسی قیادت بھی نہیں اُبھرنے دی جسے اپنی رہنمائی سونپ دیں اور جسے مقبولیت عام حاصل ہو۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر نااہلی‘ کرپشن‘ ملک دشمنی سمیت کئی الزامات اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے لگائے جاتے ہیں لیکن اس میں تو پیپلز پارٹی کا کوئی قصور نہیں ہے کہ اُس کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا مال نہیں لاسکی ہے جس کی پولیٹیکل مارکیٹنگ کی جاسکے۔ یہ تھوڑے عرصے بعد ایک نئی پارٹی بنا دی جاتی ہے اور ہر تین سال بعد اسٹیبلشمنٹ عوام کے لئے الگ نیا ”نجات دہندہ“ مارکیٹ میں پھینک دیتی ہے۔ اب تک جتنے نجات دہندہ مارکیٹ میں لائے گئے اُن کے نام بڑے بڑے جغادریوں کو یاد نہیں ہوں گے۔ کچھ عرصہ قبل ائیرمارشل (ر) اصغر خان عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو اس پر ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ ”پرانے اصغر خان نئے اصغر خان کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں“ دوسرے دوست نے اُن سے اختلاف کیا اور کہاکہ ”نہیں! پرانے عمران خان نئے عمران خان کی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں“۔ بات کچھ بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ اصغر خان سے عمران خان تک پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کئی نجات دہندہ لائے گئے جن کے نام فوری طور پر گنوانا ممکن نہیں۔ اس دوران میاں نواز شریف ایک ایسے لیڈر کے طور پر اُبھرے جنہوں نے دیگر نجات دہندگان سے زیادہ برسرزمین اپنی سیاسی حیثیت منوائی اور ایک سیاسی جماعت بنائی۔ اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی روایات سے ہٹ کر شاید سیاست کی‘ اس لئے اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ اُن سے دور ہوگیا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کر لئے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ کوئی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ ایک طرف تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹایا نہیں جاسکا۔ دوسری طرف اُس کے مقابلے میں کوئی بڑا سیاسی اتحاد اب تک نہیں بن سکا اور نہ ہی کوئی ایسی سیاسی جماعت کھڑی کی جاسکی جو پورے ملک میں پیپلز پارٹی کے لئے چیلنج بن سکے۔ اسٹیبلشمنٹ نے وقت ضائع کردیا ہے۔ میاں نواز شریف کی اس طرح پشت پناہی نہیں کی گئی جو اُنہیں پہلے حاصل ہوتی تھی۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں یہ کہتی ہیں کہ عمران خان پر ساری سرمایہ کاری کی گئی۔ بعض لوگوں کو تو اسٹیبلشمنٹ کی دانش پر اعتراض ہے‘ جو اُن کے خیال میں عمران خان کو مبینہ طور پر آگے لے آئی۔ انتخابات سر پر آپہنچے ہیں اور وقت ضائع ہوچکا ہے۔
اب کیا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو پیپلز پارٹی کے مخالف حلقے ایک دوسرے سے کررہے ہیں۔ ان حلقوں کے حامی دانشوروں کے تبصروں اور تجزیوں سے جو باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ ”اس مرحلے پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے انتخابات کو روکنا یا انتخابات سے فرار حاصل کرنا مشکل ہے۔ انتخابات میں یہ کوشش کی جائے گی کہ مینڈیٹ منقسم ہوجائے یا کردیا جائے اور انتخابات کے نتیجے میں ایسی حکومت بنے جو اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں اور اشاروں پر چلے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ یہ ایک الگ سوال ہے کیونکہ یہ 1990ء نہیں ہے۔ اگر انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر 1977ء والا عمل (EPISODE) دہرایا جائے یعنی انتخابات کے بعد اگر پیپلز پارٹی کی دوبارہ حکومت بن جائے تو اُس کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) جیسی تحریک چلائی جائے جو فوج کی مداخلت کا راستہ ہموار کرے“۔ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ یہ1977ء بھی نہیں ہے۔ اب حالات بہت مختلف ہیں پاکستان کے اندر پی این اے جیسی کوئی بھی تحریک چلی تو پاکستان کے دشمن اس کا بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے اور پاکستان کو مزید بدامنی اور خونریزی کے عذاب میں مبتلا کردیں گے۔ پاکستان کے فوجی آمروں نے سیاسی عمل کو روکنے کے لئے بین الاقوامی سامراجی ایجنڈوں پر عمل کیا اور پاکستان کی سرزمین کو سامراجی مفادات کے لئے میدان جنگ بنا دیا۔ آج کراچی سے خیبر تک اور دالبندین سے تھر تک پاکستان کے دشمنوں نے اپنے مقامی کارندے دہشت گردوں کے ذریعے اپنا جال پھیلایا ہوا ہے۔ اب چیزیں اُس طرح کنٹرول میں نہیں ہیں جس طرح1977ء یا1990ء میں تھیں۔ دشمن پاکستان کے اندر داخل ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی افواج ایک طرف ملک کے شمال میں اپنی ہی سرزمین پر اپنے لوگوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہیں اور دوسری طرف ملک کے جنوب میں کراچی اور بلوچستان میں فوج بلانے کے مطالبے ہورہے ہیں۔ پاکستان کے داخلی استحکام کے خلاف جنگ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں موبائل فون بند کرنا پڑتے ہیں اور لوگوں کو اپنی گاڑیوں پر سفر نہیں کرنے دیا جاتا، شاہراہیں بند کرنا پڑتی ہیں اور آئے روز ایسی ہنگامی حالت نافذ کرنا پڑتی ہے جو جنگوں میں ہوتی ہے۔ اب پرانے آپشنز کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔ ملک کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ انتخابات کا ممکنہ حد تک شفاف اور منصفانہ انعقاد کیا جائے۔ جو بھی نتیجہ آئے‘ اُسے قبول کیا جائے اور سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قیادت کو مرحلہ وار پنپنے دیا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی جماعتیں ری پبلکن اور کنزروٹیو ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آتی ہیں۔ اگرچہ اُنہیں اقتدار میں لانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ مختلف حربے استعمال کرتی ہے لیکن برسرزمین سیاسی جماعتیں اور اُن کی قیادت اہم کردار ادا کررہی ہوتی ہیں۔
تازہ ترین