• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی تحریر…بینش عمر
سال 2018ء میں اگست کا مہینہ اس بار ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کی طرف قدم بڑھانے کی امید سے شروع ہوا کہ جس میں ملک کے نظام کو بدلنے کا عزم لے کر سیاسی جدوجہد کرنے والے عمران خان نے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔13 اگست کا سورج ڈھل چکا تھا مگر رات ابھی پوری طرح تاریک نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو ایک کنسرٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ نئے پاکستان کے خواب کو تعبیر ملنے کا جشن دیکھ سکیں۔ میری چھوٹی بیٹی چھ سالہ انایہ اپنی بڑی بہن دس سالہ امل کے ساتھ پہلی مرتبہ کنسرٹ دیکھنے کیلئے پرجوش تھی۔ رات دس بج کر پانچ منٹ کا وقت تھا۔ ہم ٹریفک سگنل پر سرخ بتی کی وجہ سے رکے ہوئے تھے کہ اچانک وہاں افراتفری شروع ہو گئی، ہم سمجھ نہ سکے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ میرے شوہر نے جیسے ہی گاڑی کا شیشہ کھولا تو ایک اسلحہ بردار شخص نے چیختے ہوئے ہمیں سب کچھ اس کے حوالے کرنے کا کہا۔ اس نے عمر سے ان کا فون چھینا اور میرے بیگ کو جھپٹا۔ یہ سامان لوٹ کر وہ شخص ہماری گاڑی کے عقب میں کھڑی گاڑی کی طرف چلا گیا۔ ہم حواس کو قابو میں لاتے ہوئے ابھی یہی سوچ رہے تھے کہ برا وقت ٹل گیا کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ اسی دوران اچانک ایک گولی ہماری گاڑی کی ونڈ اسکرین پہ لگی۔ انایہ، عمر کی سیٹ کے پیچھے چپھی ہوئی تھی جبکہ امل پچھلی سیٹ پر لیٹی نظر آئی لیکن وہ بے حس و حرکت کیوں تھی؟ میں گاڑی کے اندر ہی سے بمشکل پچھلی سیٹ پر پہنچی اور اپنی بیٹی کو اٹھایا۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، مجھے بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ اسے کہاں چوٹ لگی ہے۔ میں نے عمر کو بتایا کہ امل کے سر پر چوٹ لگی ہے۔ اس کی سانس چل رہی تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے اپنی چھوٹی بیٹی کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ گبھرائو نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ معصومیت سے بولی کہ ہم کنسرٹ پر نہیں جا سکیں گے کیونکہ ہمیں امل کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ عمر نے یہ سنتے ہی گاڑی کو بھگاتے ہوئے اسپتال کا رخ کیا۔ ہم قریبی میڈیکل سنٹر پہنچے، اسپتال کا عملہ تیزی سے امل کو لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا۔ اسپتال کے عملے نے مصنوعی تنفس دینے کیلئے ایک ٹیوب امل کو لگائی اوراس کو ہاتھوں سے دبانے کے لیے ہمیں تھما دیا۔ اس وقت عمر کو عملے نے بتایا کہ امل کو یا تو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر یا پھر آغا خان یونیورسٹی اسپتال لے جائیں کیونکہ وقت بہت کم ہے اور وہ ہماری بچی کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔اس وقت تک ہمیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ گولی کہاں سے آئی اور کیا یہ ابھی تک امل کے سر میں ہے یا نکل گئی ہے۔ عملے نے بھی ہمیں کچھ نہیں بتایا ۔ وہ اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ ہم بچی کو دوسرے اسپتال منتقل کریں۔ہم نے انہیں ایمبولینس کا انتظام کرنے کا کہا لیکن اس پر بھی کوئی خاطر خواہ عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ کسی نے ایک این جی او کو فون ملا کر مجھے پکڑاتے ہوئے کہا کہ انہیں تفصیل بتا دیں۔ فون پر موجود نمائندہ نے کہا کہ پہلے مطلوبہ اسپتال میں زخمی بچی کیلئے بیڈ کا انتظام کریں۔ میں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت بالکل نہیں ہے، میری دس سالہ بچی کے سر میں گولی لگی ہے اور ہمیں فوری طور پر ایمبولینس درکار ہے۔ میری بیٹی موت سے لڑ رہی تھی اور میں بدستور ایمبولینس بلوانے کیلئے اصرار کرتی جا رہی تھی۔ اسی دوران میرے شوہر کو اسپتال کے عملے نے قائل کر لیا کہ وہ امل کو اپنی گاڑی میں ہی کسی دوسرے اسپتال لے جائیں لیکن عمر نے ان سے کہا کہ اگر اسپتال کا کوئی تربیت یافتہ اسٹاف ان کے ساتھ چلےجس پر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ عمر نے ان سے کہا کہ یہ ایمبو بیگ اور ٹیوب بچی کے ساتھ ہی لگی رہنے دیں اور ہمیں بتا دیں کہ یہ کس طرح کام کرتی ہے لیکن عملے نے یہ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ہم وہاں کھڑے یہ سوچتے رہے کہ کاش کسی طرح ہم اپنی بچی کی تکلیف دور کر سکیں، کاش ہم وقت کو واپس موڑ سکیں اور اپنی بچی سے یہ سب کچھ ہونے پر معذرت کر سکیں لیکن اسی دوران ہم نے اپنی امل کو آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھا۔ وہ ہمیشہ کیلئے جا چکی تھی۔ ہم ناکام ہو گئے، ہر کوئی ناکام ہو گیا۔ یہ پورا نظام ممکنہ اور کلی طور پر ناکام ہو گیا۔ اگلے دن تعزیت کیلئے آنے والوں میں متعدد پولیس حکام بھی ہمارے گھر آئے۔ پولیس کا موقف رہا کہ امل کو لگنے والی گولی ڈاکو کی تھی تاہم 16اگست کو سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدیداران تعزیت کیلئے آئے تو ان سے بات چیت کے دوران عمر نے اپنے ان تحفظات کا اظہار کیا ۔ اسی ملاقات میں موجود ایک افسر کو گاڑی کی تصاویر دیکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ گاڑی پر لگنے والی گولی قدرے بڑے ہتھیار کی تھی۔ اس دن یہ فیصلہ کیا گیا کہ واقعہ کی مزید انکوائری کی جائے گی۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اس انکوائری میں سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مہلک گولی جائے وقوعہ پر موجود پولیس اہلکار کے ہتھیار سے چلائی گئی تھی۔ ڈی آئی جی کے مطابق بظاہر گولی سڑک پر لگنے کے بعد وہاں سے گاڑی کی عقب میں لگی اور پچھلی نشست پر امل کو زخمی کرتے ہوئے ونڈ اسکرین سے نکل گئی۔ ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق ایسے واقعات میں مارے جانے والے دس میں سے ’’صرف‘‘ دو لوگ ہی بے گناہ مارے جاتے ہیں، اسے کولیٹرل ڈیمیج کہا جاتا ہے۔ گویا ہماری دس سالہ بچی کی موت بھی کولیٹرل ڈیمیج تھی؟ کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جانے والے محکمے ہمارے لیے بری طرح ناکام رہے۔ ہمیں افسوس کے ساتھ اس نظام پر سوال اٹھانا پڑتا ہے جس میں ایک آزاد ملک کے گلی کوچوں میں AK-47سے ایک ڈاکو کو مارنے کیلئے اندھا دھند سات گولیاں چلاتا ہے۔ ایک ماہ سے زائد ہو گیا، ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جا چکا ہے ؛تاہم ہماری زندگی برباد ہو چکی ہے۔ جب امل کو میڈیکل سنٹر لیجایا گیا تھا تو اسے وہاں کوئی ابتدائی طبی امداد نہیں دی گئی حتیٰ کہ کسی دوسرے اسپتال منتقل کرنے کیلئے بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اس رات سکیورٹی اور صحت کے محکموں نے ہر وہ اقدام کیا جس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری بچی زندہ اپنے گھر واپس نہ پہنچے۔ ہماری چھوٹی بیٹی کو اپنی بڑی بہن کے کھو جانے کا دکھ سمجھنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا لیکن یہ واقعہ اس کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ پولیس اور اسپتال دونوں نے ہماری بچی کو ہم سے چھین لیا۔ ایک بچی کے والدین ہونے کے ناتے ہم چاہیں گے کہ اس ملک کے کروڑوں بچوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو۔ ہم سب سے کہتے ہیں کہ وہ پولیس اصلاحات کے مطالبات کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم ان محکموں سے جواب طلبی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم ان سے انسانیت اور ہمدردی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم اس معاشرے اور اس کے نظام میں انصاف اور بہتری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تازہ ترین