• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس روز کالم لکھنا ہو اس روز میں اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آج یوم مشقت ہے۔ آج کالم لکھنے بیٹھاتو روزمرہ کی سیاست پر لکھنے کو جی نہ مانا۔ میرا ایک پرابلم یہ بھی ہے کہ میری دنیا میں دل کی حکومت ہے کیونکہ میں بندہ ٴ آزادہوں۔ میں کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں کہ دل کو ضروریات کے تابع کرلوں اور نہ ہی کسی ایسے گروہ یاگروپ سے میرا تعلق ہے جو ہمہ وقت اپنی مخصوص آئیڈیالوجی پھیلانے پرمامور ہیں۔ دل کی حکومت نے مجھے خاص حد تک دنیاوی ضروریات سے بے نیاز کردیا ہے اور اب میرے قلب میں خوف ِ خدا کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ خوف ِ خدا کے علاوہ دنیا کا کوئی اور نسخہ مادی اور دنیاوی ضروریات کا علاج نہیں کرسکتا کیونکہ یہ ضروریات مفادات کا روپ دھار کر انسان پر سواری کرنے لگتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ قلم، ذہن اور زبان ان مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں جس کے مظاہرے آپ ہر وقت اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں۔لکھنے بیٹھا تو پاکستانی سیاست کے حوالے کا پوسٹمارٹم کرنے کو جی نہ چاہا۔ سوچا کیا لکھوں تو کتاب زیست کا ایک ورق آنکھوں کے سامنے کھل گیا۔ ہزاروں واقعات دیکھے، ہزاروں تجربات سے گزرے لیکن یاد صرف وہ رہ جاتے ہیں جن میں کوئی انمول سبق پنہاں ہو یا جنہوں نے متاثر کیا ہو۔ دوستوں اورقاریوں کے اصرار کے باوجود میں ”صفدرنامہ“ لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ کبھی کبھار ایک آدھ ورق سے پردہ اٹھانے میں کیا حرج ہے؟
دسمبر کے حوالے سے یاد آیا کہ یہ اسلام آباد میں 1976 کے دسمبر کی ایک سرد شام تھی۔ ان دنوں اسلام آباد میں اس قدر سردی پڑتی تھی کہ صبح سویرے گھروں کے لان، چھت اور گلیوں کے درخت سفید کہرے میں ملبوس نظر آتے تھے اور قلفی جم جاتی تھی۔ میں ان دنوں پاکستان کے ایک اہم خفیہ محکمے میں تعینات تھا۔میرے شعبے کا کام تحقیق کرنا، تجزیات تیار کرنا اور خاص طور پر چندہمسایہ ممالک کے ان رجحانات کا مطالعہ کرنا تھا جن کے اثرات پاکستان پر پڑ سکتے تھے۔ چنانچہ ہمارا روزمرہ کی سیاست سے تعلق تھا اور نہ ہی داخلی صورتحال سے… البتہ باہر کے ظاہر بیں لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں ہر شے کا علم ہے اورہم بھی اپنی ”لاعلمی“ یا ”کم خبری“ کا بھرم رکھنے کے لئے خوش رہتے تھے۔ یہاں ہم سے مرادمیں نہیں بلکہ میں اور میرے اس شعبے کے ساتھی ہیں۔ اسی ظاہری تاثر کے تحت ایک روزاس وقت کے ایک اہم وزیر مولانا کوثر نیازی نے مجھے فون کیا اور شام کی چائے کی دعوت دی۔ مولانا ان دنوں وزارت ِ مذہبی امور کے وزیر تھے اور انہیں ایک سازش کے ذریعے وزارت ِاطلاعات سے رخصت کیا جاچکا تھا۔ میرا مولانا سے کچھ لاہوری مشترکہ دوستوں کے طفیل تعارف تھااور پھرمیں ان کے زمانہ میں وزارت ِ اطلاعات کے ایک شعبے کا سربراہ بھی رہ چکا تھا چنانچہ انہیں مجھ پراعتماد تھا اور یہ دعوت ایک اعتماد کا شاخسانہ تھی۔ میں جب شام کو مولانا کے گھر پہنچا تو وہ دسمبر کی ٹھنڈی ٹھار شام کے باوجود لان کے ایک کونے میں ٹرالی پر گرم چائے رکھے میرے منتظر تھے۔ اس روداد کو آپ 1977 کے انتخابات کے پس منظر میں دیکھیں جن کا فی الحال اعلان نہیں ہوا تھا۔ بس افواہیں تھیں اوربے لگام تھیں۔ چائے کا دور چلا تو سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے اچانک مجھ پر سوالات کا وار کردیا۔ کہنے لگے کہ” ڈاکٹر صاحب آپ کو علم ہے کہ میں کچھ عرصے سے بھٹو صاحب کے زیر عتاب ہوں؟ ایف آئی اے میرے خلاف خفیہ مواد اکٹھا کر رہی ہے اور خفیہ محکموں نے میری فائلیں کھول رکھی ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان فائلوں میں کچھ قابل اعتراض تصاویر بھی بنا کر رکھ لی گئی ہیں؟“ میں نے سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے گرم چائے کاگھونٹ پیتے ہوئے جواب دیا کہ ”میں نے فائلیں تو نہیں دیکھیں لیکن یہ میرا تاثر ضرور ہے کہ آپ کا پیچھا کیا جارہا ہے۔“وہ مسکرائے اور یہ مسکراہٹ میرے محتاط انداز پر طنز تھی۔ مطلب یہ کہ مجھ سے چھپاتے ہو حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے خفیہ کہانیوں کا سرے سے علم ہی نہیں تھا محض سنی سنائی پرگزارہ تھا کیونکہ خفیہ محکموں میں عام طورپر دائیں ہاتھ کو علم نہیں ہوتا کہ بایاں ہاتھ کیاکر رہاہے۔ مولانا نے انداز بدلااور کہا ”ڈاکٹرصاحب آپ کو علم ہے کہ حفیظ پیرزادہ (وزیر) اورممتاز بھٹو (وزیر) چند ہفتوں سے دفتر نہیں جارہے اور گھروں تک محدودہیں۔“ میں نے جواب دیا کہ ”جی ہاں مجھے علم ہے۔“ اس”علم“کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اخبارات میں اس حوالے سے خبریں چھپ چکی تھیں۔ مولانا کے چہرے پر نظر پڑی تومجھے یوں لگا کہ جیسے وہ گہری سوچ، اداسی، کرب اوراندیشہ ہائے دوردرازمیں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پھرمولانا نے ایک دم حملہ کیا ”ڈاکٹر صاحب! ایسا کیوں ہے؟ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟“ میں نے جواب دیا ”مجھے وزیراعظم کی سوچ کا ہرگز اندازہ نہیں نہ میں اندرونی معاملات سے آگاہ ہوں لیکن میرا اندازہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اگلے ماہ جنوری 1977میں عام انتخابات کا اعلان کرنے والے ہیں اور وہ ان تمام جماعتی دھڑوں کوغیر موثر Neutralise کردینا چاہتے ہیں جو امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینے کے وقت اپنے دھڑوں کے لئے دباؤ ڈالیں گے۔“ میری بات سن کرمولانا کے چہرے پر اداسی مزید گہری ہوگئی۔ انہوں نے خلا میں گھورا اور لمبی سانس لے کر ایک ایسی بات کہی جو ہمیشہ کے لئے میرے ذہن پر چپک گئی۔ مولانا کوثر نیازی اللہ کو پیارے ہوچکے۔ بھٹوصاحب کا معاملہ خالق حقیقی کے سپرد ہوچکا کہ یہی ہر جاندارشے کا انجام ہے۔ کبھی بھٹو صاحب کا ڈنکا بجتا تھا۔ لوگ ان سے خوفزدہ اورسہمے سہمے رہتے تھے۔ خود مولانا نے مجھے سردی کے باوجود لان میں چائے اس لئے پلائی تھی کہ انہیں خطرہ تھاشاید ان کے گھر کے اندر ریکارڈنگ کے خفیہ آلات نصب ہوں گے حالانکہ میرے اندازے کے مطابق ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ محض ان کا خوف تھا اور خوف زندگی میں بڑا اہم رول سرانجام دیتا ہے، رویئے ترتیب دیتا اور خوفناک فیصلے کرواتا ہے۔ دوستو!خوف سے ہمیشہ محفوظ رہو۔ یہ ظالم شے ہے اور اس سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دنیا کے خوف دل سے نکال کرصرف اورصرف خدا کا خوف دل میں اس طرح بٹھا لو کہ کوئی خطرہ اورخوف باقی نہ رہے۔ کل کے خوف سے، مستقبل کے اندیشوں سے،جان کو خطرات کے خوف، مفادات پر زد پڑنے کے خوف سے، دنیاوی حاکم کی ناراضگی کے خوف سے، شکست کے خوف سے، مقبولیت یا شہرت میں کمی کے خوف سے، دولت چھن جانے یا بھوک کے خوف سے میں نے اشرف المخلوقات حضرت انسان کو خوف کا قیدی بن کر عجیب و غریب حرکتیں کرتے اوربعض اوقات خوفناک کام کرتے دیکھا ہے۔ اگر آپ اللہ کے خوف کا دامن پکڑ کر رضائے الٰہی پر شاکر ہوجائیں تو پھر آپ صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات بن جائیں گے۔
بات دور نکل گئی میں عرض کر رہا تھا کہ میری بات سن کر مولانا کوثر نیازی کے منہ سے ایسے الفاظ نکلے جن کے معانی وسیع، مفہوم گہرا اور ”سبق“ واضح تھا۔ مولانا نے بے ساختہ کہا ”ڈاکٹر صاحب! بھیڑیئے کاخوف اچھا ہوتا ہے یا بڑے بھائی کا پیار“ … ملاقات تھوڑی دیر کے بعد ختم ہوگئی اورگھر آتے ہوئے میں راستہ بھر سوچتا رہا کہ نہ جانے کیوں ہمارے حکمران، افسران، بااثر اور دولت مند طبقات اور سیاستدان بڑا بھائی بننے کی بجائے بھیڑیا بننا پسند کرتے ہیں حالانکہ خوف نفرت پیدا کرتا ہے اور پیار محبت اور وفاداری پروان چڑھاتا ہے۔
جس رات جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا، اسی صبح راولپنڈی کے ایک اخبار میں گرفتاری سے تھوڑی دیر قبل دیا گیا مولانا کوثر نیازی کا یہ بیان چھپا ”بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے“ میں نے مارشل لا کے سائے میں صبح سویرے یہ بیان پڑھا تو فوجی مداخلت کے دکھ کے باوجود یادوں کے چراغ جلنے لگے۔ میں نام گنوا کر زخم تازہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس رات بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اس رات پی پی پی کے وہ تمام لیڈران جنہیں خوف کے تجربات ہوئے تھے، بے غم لمبی تان کر سوتے رہے کیونکہ خوف، سردمہری اوربغاوت پیدا کرتا ہے جبکہ محبت وفاداری اور قلبی تعلق کو جنم دیتی ہے۔
تازہ ترین