• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت کم لوگ اپنی مخصوص عادت یا عادات کے بارے میں کسی کو کچھ بتانا پسند کرتے ہیں بلکہ عام طور پر لوگ اپنی مخصوص عادت یا عادات کو چھپاتے ہیں۔ کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔ آپ اپنی مخصوص عادات کے بارے میں کسی کو کچھ بتاتے ہیں؟ مثلاً جب آپ کہیں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، پھر وہ چاہے کرسی ہو، صوبہ ہو، یا چارپائی ہو، آپ اپنی بائیں یا پھر دائیں ٹانگ ہلاتے رہتے ہیں۔ آپ کسی کو بتا نہیں سکتے کہ آپ ٹانگ کیوں ہلاتے رہتے ہیں۔ آپ بازار سے گزررہے ہوتے ہیں۔ آپ خریدار بھی نہیں ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپ رک رک کر دکان اور ٹھیلے والو ں سے چیزوں کے بھائو پوچھتے ہیں۔’’بھائی صاحب اُس جانگیےکی کیا قیمت ہے؟ اور وہ جو خاکی رنگ کی نیکر ہے،وہ کتنے کی ہے؟ اور اُس کاسنی دوپٹے کی کیا قیمت ہے؟ اور یہ سنہری چوڑیاں؟ وہ پاجامہ؟ وہ کرتا؟ ٹماٹر کس بھائو بیچ رہے ہو بھائی؟ اور آلو؟ پیاز؟ یہ آپ کا روز کا معمول ہے۔ اس گلی کے نکڑ پر آپ کا مکان ہے۔ مکان کے دروازے پر آپ کی بپھری ہوئی بیوی آپ کا انتظار کررہی ہوتی ہے۔ آپ کو دیکھتے ہی پھٹ پڑتی ہے۔’’ دفتر میں کام کا بہانہ مت بنانا۔ سچ سچ بتائو۔ چیزوں کے بھائو پوچھتے پوچھتے آرہے ہو نا؟ جب تمہیں کچھ خریدنا نہیں ہے تو پھر چیزوں کے بھائو کیوں پوچھتے ہو؟ تم اپنی اس عادت سے کب باز آئو گے؟

میرے ایک دوست کی اس بنا پر شادی نہیں ہوسکی ہے کہ اسے کپ سےطشتری میں انڈیل کر چائے پینے کی عادت ہے۔طشتری سے چائے پیتے ہوئے وہ شررر کی سی عجیب آواز نکالتا ہے۔ اِب تو میرے جیسا کھڑوس بڈھا ہوگیا ہے۔ مگر اپنی عادت سے باز نہیں آتا۔ آپ کچھ غلط مت سوچئےگا۔ میرا دوست گنوار تھا، نہ اَن پڑھ تھا۔ وہ بائیس گریڈ کے فیڈرل سیکرٹری کی پوسٹ سے ریٹائر ہوا تھا۔ کپ سے طشتری میں انڈیل کر چائے پیتا تھا۔

آپ اخبار پڑھتے ہونگے۔ ضرور پڑھتے ہونگے۔ نہ جانے کیوں مجھے خوش فہمی ہے کہ پاکستان کا ہر شخص کوئی نہ کوئی اخبار ضرور پڑھتا ہے۔ جبکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ لاکھ اخبار روزانہ فروخت ہوتے ہیں۔ یعنی ایک فی صد سے بھی کم آبادی اخبار پڑھتی ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے خوش فہمی ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی اخبار روزانہ پابندی سے پڑھا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر ایسا ہونا چاہیے۔ یہ جو والدین شکایت کرتے پھرتے ہیں کہ بچوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے، غلط ہے۔ والدین نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ اگلے وقتوں میں ہوش سنبھالنے کے بعد بچہ سب سے پہلے والدین کو اخبار پڑھتے ہوئے دیکھتا تھا اور اس طرح پڑھنے کا شوق اس کی رگوں میں شامل ہوجاتا تھا۔ عادتاً گھر میں اخبار پڑھے جاتے تھے۔ میں اپنے ماموں کو انہماک سے اخبار پڑھتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وہ اخبار سے خبریں نہیں پڑھتے تھے۔ وہ اشتہار پڑھتے تھے۔ بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ کم کم سنتے تھے۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں والی عینک لگاتے تھے جس سے ان کے دیدے بیل کی آنکھوں جیسے لگتے تھے۔ وہ دو طرح کے اشتہار پڑھتے تھے۔ روزگاری کے اشتہار اور ازدواجی رشتہ داریوں کے اشتہار۔ وہ میرے سچ مچ کے ماموں تھے۔ اس لیے مرگئے تھے۔ دوسرے قسم کے ماموں کبھی نہیں مرتے۔ وہ ہمیں مار ڈالتے ہیں۔

کچھ عادتیں بہر حال اور ہر صورت میں عادت ہونے کے باوجود عادت کہلانے میں نہیں آتیں۔ مثلاً پوسٹ کے ٹکٹ جمع کرنا اور ان کا البم بنانا۔ میں بھی پوسٹ کےٹکٹ البم میں لگاتا تھا۔پاکستان کے پہلے پوسٹ ٹکٹ پر یومِ آزادی پندرہ اگست Independence Day 15August لکھا ہوا تھا۔ ٹکٹ جمع کرنا میری عادت ہونے کے باوجود میری عادت نہیں تھی۔ اسکو ہابی Hobby کہتے تھے۔ مختلف ممالک اور مختلف ادوار کے سکے جمع کرنا عادت کہلوانے میں نہیں آتی۔ وہ آپ کی ہابی Hobby ہوتی ہے۔ مگر استعمال شدہ شاپنگ کے پلاسٹک بیگ یعنی تھیلیاں جمع کرنا آپ کی عادت ہوتی ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں جمع کرنا آپ کی ہابی نہیں ہو سکتی۔ اس نوعیت کی عادتیں لوگ چھپاتے ہیں۔ کسی کو نہیں بتاتے۔ کیوں نہیں بتاتے؟ میں نہیں جانتا۔ مگر میں اپنی کوئی عادت، اپنی کوتاہیوں کی طرح کسی سے نہیں چھپاتا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ میں جھوٹا ہوں۔ میں جب تک جھوٹ نہ بولوں، تب تک مجھے نیند نہیں آتی۔ عادت جب پرانی ہوجاتی ہے، تب فطرت میں بدل جاتی ہے۔ جھوٹ بولنا میری فطرت ہے۔ آپ اپنی انوکھی عادات مجھ سے چھپاتے ہیں۔سب سے چھپاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے آپ سے چھپاتے ہیں۔ مگر میں ایسا نہیں کرتا۔ میں بہت ہی کمزور اور ناتواں شخص ہوں۔ کسی قسم کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ کچھ چھپانے میں بڑا وزن ہوتا ہے۔ میں اتنا وزن اٹھا نہیں سکتا۔ وزن تلے دب جائوں گا۔ اس لیے میں کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ ایسا کرنے سے آپ اپنی اچھی بری عادتیں یعنی عادات چھپانے میں اپنی توانائی ضائع نہیں کرتے۔ چھپانے کی سعی میں بڑا وزن ہوتا ہے۔ آپ نے چاہے کسی کی املاک کا دستاویز چُرایا ہو، کسی کا لو لیٹر Love Letterہتھیا لیا ہو۔ کسی اور کی ملازمت کا اپوائنٹمنٹ آرڈر آپ نے چالاکی سے اپنے نام کرلیا ہو۔ ان باتوں کو چھپانے میں بڑا وزن ہوتا ہے۔آپ وزن تلے دب جاتے ہیں۔ آپ کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ وقت سے بہت پہلے آپ بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ اِسی بنا پر میں اپنی عادتوں کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ سب کچھ بتادیتا ہوں۔ ایک ڈنکالے آتا ہوں۔ پھر ڈنکے کی چوٹ پر سب کو سب کچھ بتادیتا ہوں۔

کھانا پکانے کی ہانڈیوں میں لگی ہوئی کھرچن کھانا میری پرانی عادت ہے، خاص طور پر بریانی، زردہ اور سویوںکی کھرچن کھانا مجھے اچھا لگتا ہے۔ آنکھ بچاکر گاڑیوں کے ٹائر ٹیوب سے ہوا نکالنا میری عادت ہے۔ سانپوں اور بچھوئوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالنا میری عادت ہے۔ مگر میری انوکھی عادت کچھ اور ہے۔ میں بدل کر فقیروں کا بھیس، تماشائے اہلِ کرم دیکھتا ہوں۔ اس اپنی انوکھی عادت کے بارے میں آپ کو میں اگلی کتھا میں سب کچھ بتادوں گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین