• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ مت کے پیروکاروں کے حوالے سے بدھ مت کو جاننے والے عام لوگوں کے خیال میں بدھ مت کے پیروکار ہمیشہ امن و سلامتی کا د رس دیتے ہیں۔ محبت ان کا بنیادی درس ہے۔ یہ کسی سے عداوت نہیں رکھتے، نفرت کا دور دور تک نشان ان کے ہاں نہیں ملتا، مگر برما میں صورتحال برعکس ہے وہ بھکشو جنہیں پیار سکھانا چاہئے اپنے مندروں میں آنے والوں کو یہ درس دیتے نظر آتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کو ختم کر دینا چاہئے۔ ان کے خیال میں یہ مسلمان نجانے کہاں سے ان کی زمین پر آ ٹپکے ہیں اور اب اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی نسل کے باعث ان کے وسائل پر بوجھ ہیں۔اگرچہ نسلوں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کو بدھوں کے علاقوں میں ہمیشہ اچھوتوں کی سی حیثیت مل رہی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے بدھ مت کے پیروکار ان اچھوتوں کے وجود کو بھی ختم کر دینے کے درپے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ نفرت فوجی حکمرانوں کے جمہوریت کی طرف بڑھتے اقدامات کی وجہ سے زیادہ بڑھی ہے، جیسے ہی حکمرانوں نے جمہوری اقدامات کئے اور اداروں کو زیادہ بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور دوسرے اداروں سے سنسر شپ ختم کی، نفرت میں اضافہ ہونے لگا۔ بقول ایک بدھ خاتوں کے نفرت کا یہ عالم ہے کہ بدھوں کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے ہے روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنا نہیں ہے۔ پچھلے دنوں جاری فسادات میں 167 لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنے گھر بار چھو کر کیمپوں میں رہنا پڑا اور اگرچہ عارضی طور پر فسادات رک بھی گئے لیکن 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہے، ان کیلئے کوئی جائے امان نہیں، نیشنلٹی ان کو ملی نہیں اور نہ ہی یہ ملنے کی امید ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بدھوں کا یہ پریشر کہ ان کو ملک سے نکال دیا جائے انکے سکون کو اور غارت کر رہا ہے۔ اگرچہ صدر اوباما نے اپنے برما کے دورے کے دوران برمیز اسٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہر رنگ اور نسل کے لوگوں کو بغیر کسی امتیاز کے برابری کے حقوق ملنے چاہئے لیکن برما کے لوگ انکے اس پیغام پر کان دھرتے نظر نہیں آتے ۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ اگر برما کے اقتصادی معاملات ایسے ہی رہے جیسے کہ ہیں تو مسلمانوں کی زندگی اور دشوار ہو جائیگی۔
برما کے مسلمانوں کے ایسے حالات پڑھ کر اور ان کے بارے میں رپورٹس پڑھ کر پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کے دلوں پر کیا نہیں گزرتی۔ آئے دن ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہمارے دوست (اگرچہ بعض اوقات فرضی قصے گھڑ کر اور نسل کشی کی فرضی تصاویر چھاپ کر) ہمیں اور اہل اقتدار کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کے مستقبل کیلئے کچھ کیا جانا چاہئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے وطن میں مسلمانوں نے اپنے بھائی بندوں کیلئے ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں کہ جہاں ان کے مسلک سے الگ مسلک رکھنے والے سکون سے جی سکیں؟ آج ہی فیس بک پر ایک مسلک کے مارے جانیوالے لوگوں کی تصاویر کیساتھ جو کمنٹس لکھے نظر آ رہے ہیں وہ اس ملک میں پھیلائی جانے والی نفرت کا اظہار ہیں۔ ہم روہنگیا مسلمانوں کا کیا رونا روئیں ہم نے خود اپنے بھائیوں کو برابری کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بار امریکہ سے آئے ہوئے ایک فلسطینی مسلمان سکالر سے ملاقات میں میں نے ان سے اسلام اور دوسرے مسالک کے بارے میں تعلق کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ بس یوں سمجھو کہ یہ دنیا مختلف مسالک کے حوالے سے پھولوں کا ایک گلدستہ ہے۔ ہر مسلک اپنے الگ رنگ کی وجہ سے اس گلدستے کی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ نفرت بنیادی طور پر کم علمی سے پیدا ہوتی ہے اور تنقیدی انداز فکر سے بیگانگی بھی نفرت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ حقیقت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہمارا نظام تعلیم دن بدن ابتر سے ابتر صورت اختیار کئے جا رہا ہے۔ اس سے انتشار میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن دوسرے کو برابری کے حقوق دینا ،سب کو برابر تسلیم کرنا، دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھنا ایسے جذبات و خیالات پیدا نہیں ہو رہے۔ یہ سب صوفیاء کی دین تھی۔ لیکن یہ سب ہم بھول چکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان کو دنیا کے سات سب سے زیادہ کرپٹ اور غیر محفوظ ملکوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ہمارا جہاد اپنے آپ کو اس سے چھٹکارا پانے کا ہونا چاہئے نہ کہ یہ نفرت میں اضافے کے لئے ہو۔ یہ رپورٹ جو ورلڈ جسٹس پراجیکٹ نے شائع کی ہے کے مطابق دنیا کے 97 میں سے 7 بدترین میں ایک پاکستان بھی ہے۔ اور اسی ابتری کی وجہ سے یہ انتہائی غیر محفوظ بھی ہے۔ یہاں اگرچہ جوڈیشل آزادی ہے لیکن حقوق انسانی، فوجداری اور دیوانی انصاف، ضوابط کے نفاذ اور حکومتی اداروں کے اختیارات پر چیک کے ساتھ ساتھ دوسرے امور کے حوالے سے مایوس کن تصویر نظر آتی ہے۔ ملک میں احتساب کی سطح انتہائی کمزور ہے۔ عدالتی نظام اور انتہائی خراب امن عامہ کی صورتحال نے ابتری میں اضافہ کیا ہے۔ دہشت گردی اور جرائم کی روک تھام نہ ہونے کی وجہ سے حالات اور خراب ہو رہے ہیں۔241 صفحات کی اس رپورٹ میں پاکستان کو کرپشن میں 97 میں سے 90، ہیومن رائٹس میں 93، دیوانی انصاف میں 91 ، اور فوجی انصاف میں 80 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہندوستان کو اپنی بہتر حکومتی کارکردگی، آزاد عدلیہ، اظہار رائے کے تحفظ میں تو بہتر نمبر دیئے گئے ہیں لیکن یہاں بھی بدعنوانی اور سنگین سیکورٹی خدشات پائے جاتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں عام آدمی کا مورال کافی گرا ہوا ہے اس طرح کی رپورٹس اس کے یقین کو اور ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں، اس کے قرضے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے، بڑھتی آبادی کے ساتھ وسائل میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ہم برما کے روہنگیا مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں بجا طور پر فکر مند ہیں لیکن یہ سوچیں کہ دنیا ہمارے بارے میں پریشان ہے۔ اگر ہم اپنی فکر نہیں کریں گے تو کسی اور کے لئے کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔
تازہ ترین