• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی انتخابی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں کبھی بھی انتخاب کا انعقاد آئین میں طے شدہ تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ ہر الیکشن میں کھل کر یہ واضح ہوا کہ انتخابی ضابطوں اور اعلیٰ جمہوری اقدار کے مطابق انتخاب کا انعقاد کرانے کے لئے یا تو الیکشن کمیشن کی سکت محدود ہے یا اس کی اپنی نیت اور غیر جانبداری مطلوب درجے پر موجود نہیں تھی۔ یہ تو دو تین بار (خصوصاً 70میں ہی) ممکن ہوا کہ انتخاب کا انعقاد شفاف ہوا۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ ڈے کی امکانی دھاندلیوں کو کم از کم کرنے کی سکت برابر کی کوششیں کی گئی، جو شفاف انتخاب کرانے کے لئے کامیاب ثابت ہوئی۔ وہ الگ بات ہے کہ ان شفاف انتخابات کے نتائج پر اکثریتی جماعت کو اقتدار نہ سونپنے کی سازشیں ملک شکن ثابت ہوئیں اور اسکے قدرتی اور منطقی نتائج ہولناک نکلے۔ رگنگ فری پولنگ میں بار بار الیکشن کمیشن کی ناکامی کے علاوہ انتخابی مہم کے دوران مہم کے ضابطوں کی خلاف ورزی پر تو الیکشن کمیشن کبھی بھی قابو نہ پاسکے۔ اکثر تو نیت کا فطور رہا، سکت بھی بہت محدودہی ہوتی ہے۔ الیکشن 2008ء کو ہی لیں تین کروڑ 40لاکھ ووٹ کافی مشکوک ہونے کی خبریں بہت ذمے دار ذرائع سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ ووٹرز لسٹ کو شفاف رکھنے اور ووٹر کی صحیح پہچان یا جعلی شناختی کارڈ پر ووٹ ڈالنے کا مسئلہ تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برکت سے کافی حد تک حل ہوگیا، بشرطیکہ الیکشن کمیشن میں اسے اختیار کرنے کی مکمل نیت، اہلیت اور شعور ہو کہ اس کے بغیر شفاف پولنگ کا ناگزیر ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس مرتبہ، الیکشن13-ء کی جو تیاری ہو رہی ہے، اس میں خبروں کے مطابق شفاف فہرستوں کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی اور اسکی بنیاد پر تیار ڈیٹے کا استعمال کیا جا رہا ہے، سب سے بڑھ کر چیف الیکشن کمشنر پر سرگرم سیاسی جماعتوں کے اعتماد کا درجہ خاصا بلند ہے جو بہت اطمینان بخش ہے۔ جہاں تک انتخابی مہم میں امیدواروں اور حکمران جماعتوں اور ان کے امیدواروں سے انتخابی مہم کے ضابطوں پر پابندی کرانے کا تعلق ہے، وہ الیکشن کمیشن کی نیک نیتی اور شعور کے باوجود محدود معلوم دیتی ہے، کیونکہ اس خلاف قانون رویے کا تعلق سیاسی جماعتوں کے قائدین، امیدواروں اور ان کے ورکرز کے اجتماعی رویے سے ہے، جس کی بنیاد ”ہرحال میں اور ہرحربے سے انتخاب جیتنے کا ہدف حاصل کرنا ہے“۔انتخابی مہم کے دوران جائز و ناجائز دولت کا بے دریغ اور خلاف ضابطہ استعمال پوری پوری برادری اور خاندان کے ووٹرز کی سودے بازی، امیدواروں کی خلاف ضابطہ غیر معمولی تشہیر، سرکاری جماعت کے امیدواروں کے حق میں سرکاری وسائل اور ملازمین کا غیر قانونی استعمال، عین انتخاب سے پہلے گلی، محلوں سے ترقیاتی پیکیج کی رشوت سے ووٹ لینے کا حربہ، پولنگ پراسس کی ممکنہ شفافیت پر پانی پھیر دے گا۔ اب تو خیر سے دونوں بڑی جماعتیں، حکمران جماعتیں ہیں اور دونوں کے زیر استعمال سرکاری وسائل بہت زیادہ ہیں، اس لئے اللہ خیر کرے۔ معاملہ روایتی رویوں اور انتخاب جیتنے جیسے ہدف کا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس اس رویے کی تبدیلی کا توکوئی نسخہ سرے سے ہی نہیں ہے، اس کی سکت بھی اس غیر جمہوری رویے پر قابو پانے کے لئے انتہائی محدود ہے۔ سو اس بے قابو دھاندلی کے نتیجے میں اصل نتائج بہرحال ایک بڑی فیصد تک متاثر ہوں گے۔ تاہم میڈیا اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، لیکن شنید اور کافی مصدقہ خبریں یہ ہیں کہ میڈیا کے اس کردار کو ذبحہ کرنے کے لئے سیاسی سوداگروں کی چھریاں کلہاڑیاں اس بار بہت تیز ہیں۔ ملتان میں قومی اسمبلی کی خالی نشست پر اڑھائی تین ماہ قبل ہونے والا ضمنی انتخاب موجودہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بعد ہی ہوا ہے، جس میں سابق وزیراعظم کے صاحبزادے اور ایک آزاد امیدوارکے مقابل گھمسان کا رن پڑا، جس میں انتخابی مہم کے متذکرہ حربوں اور سرکاری ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال ہوا، جس میں الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی کے باوجود بے بس نظر آیا، اس سے شکایت نہیں۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، طاقتور سیاسی خاندانوں کی طاقت کے مقابل تنہا فخرو بھائی کی دیانت و شرافت کیا کرسکی ہے؟جبکہ عوام سیاست دانوں کے رویے تبدیل کرنے کی بجائے خود اس میں شریک ہو جاتے ہیں۔ پھر تو وہ جملہ ضرورتیں ہیں جن کا تعلق حقیقی جمہوریت لانے کے لئے فقط الیکشن کمیشن سے ہے۔ جو ذمے داری اس کار عظیم کے لئے سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے، اس میں وہ کتنی نیک نیت ہیں، دیانتدار اور باشعور ہیں؟ اس کا جواب مایوس کن اور تقاضا یہ ہے کہ: وہ نیک نیت اعلیٰ کردار اور پس منظر کے حامل، باشعور اور شفاف امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتاریں۔ فقط پولنگ پراسس کے شفاف اور امیدواروں کے آلودہ ہونے سے، جمہوریت کو تقویت دینے والے نتائج نہیں برآمد ہوں گے، بلکہ یہ الٹ نکلیں گے پھر سیاستدان ان کی دھما چوکڑی میں قوم کو تسلیاں دیتے پائے جائیں گے کہ جمہوریت پراسس کا نام ہے، اگلے انتخاب میں اچھے امیدوار لائیں گے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ آج تینوں بڑی اور پاپولر جماعتوں میں جس طرح فصلی بٹیروں کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں اور قائدین میں قبولیت کی لچک جس درجے پر پیداہوئی ہے، اس میں دور دور تک ان کے پاس شفاف امیدواروں کے انتخاب کا انتخاب سے پہلے کوئی فارمولا نظر نہیں آرہا۔ تو شفاف انتخاب اور ان کے شفاف نتائج کی کل امید فخرو بھائی سے ہی کیوں کی جائے؟
سیاسی جماعتیں اگر جمہوریت سے مخلص ہیں اور آمریت اور سازشوں کے رہے سہے امکانات کو دفن کرنے پر یقین رکھتی ہیں تو اپنے اپنے امیدواروں کے انتخاب کے فارمولے اور میرٹ کو، عوام کو اس طور پر اتنی جلدی سامنے لائیں کہ ان پر سیر حاصل اور ملک گیر تبصرے اور تبادلہ خیال ہوسکے۔ نہیں تو، پھر پر نالا وہیں بہہ رہا ہے جہاں بہہ رہا تھا۔ پھر ایک بار پاکستانی قوم حسرتوں میں ڈوب کر امیدیں باندھ لے گی یا دعائیں کرے گی کہ یا اللہ! ہمیں بھی کوئی فرانس، چین، ایران یا شمالی افریقہ جیسا انقلاب خود ہی دے دے، ہم سے تو کچھ ہوتا نہیں۔ ہم نے تو کچھ کرنانہیں۔ یہ کم بخت، خود غرض سیاسی سوداگر ہمیں بہت آسانی سے خرید لیتے ہیں، اور ہم بہت آسانی سے بک جاتے ہیں یا بے بس ہوجاتے ہیں۔ کیا خوف اور جرأت میں کوئی رشتہ ہے؟خوفزدہ اپنا مافی الضمیر باہر نہیں لاسکتا (جسے جرأت مند چھپا نہیں سکتا) سو، خوفزدہ، اس ”عذاب مسلسل“ سے مستقل نجات کی ٹھانتا ہے۔ پھر وہ شیطانی ذہن سے سوچتا سوچتا سازش کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اپنی اسی کیفیت میں وہ اپنے مکمل مردہ ضمیر سے جرأت کی ہلاکت کا اہتمام کرتا ہے۔ وہ اپنا کام کر گزرے یا اس کی شیطانیت ناکام اور بے نقاب بھی ہو جائے، ہر دو صورتوں میں معاشرے میں جرأت و ہمت کے نئے چراغ جلتے ہیں، جن کی روشنی میں یا تو سوتے ضمیر جاگنے لگتے ہیں اور اعتراف حق عام ہوتا جاتا ہے شیطانیت پر انسانیت کا غلبہ ہونے لگتا ہے یا شیطانیت دائمی شکست سے دوچار ہو کر جیتے جی مر جاتی ہے۔ کیپٹل ٹاک کا بے باک حامد میر جرأ ت و خوف کے اسی کھیل کا کامیاب کھلاڑی ہے۔
تازہ ترین