• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اہم سیاسی خاندانوں کے نوجوان اپنے بزرگوں کی تربیت اور قیادت کے زیر اثر سیاست کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے کیلئے بالکل تیار ہیں ۔ بلاول کی ”منہ دکھائی“ کچھ عرصہ سے جاری ہے ۔ حال ہی میں انہیں ڈی ایٹ کانفرنس میں ان کے والد صدر آصف علی زرداری نے غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ ملاقاتوں میں اپنے ساتھ رکھا تاکہ وہ نوجوانی میں ہی تجربہ حاصل کر سکیں۔ آخر وہ پیپلزپارٹی کے چیرمین بھی ہیں اور انہیں ہی ایک بڑی سیاسی جماعت کی قیادت عملی طور پر سنبھالنی ہے۔ ان کی ڈی ایٹ ممالک کے سربراہوں سے ملاقات میں موجودگی پر بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا ہے جن کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بلاول ابھی کم عمر ہیں اور انہوں نے سرکاری رازوں کو خفیہ رکھنے کا حلف نہیں اٹھایا ہوا ۔ یہ اعتراض کافی حد تک صحیح ہے جس پر صدر کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔عدالت میں یہ مسئلہ اٹھایا جانے پر انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صدر ، وزیراعظم ، وزراء اور باقی اعلیٰ سرکاری اہلکار اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ سرکاری رازوں کو خفیہ رکھیں گے۔آئین اور قانون حلف کی خلاف ورزی پرسزا تجویز کرتے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کے کچھ فیصلوں میں بھی کئی سرکاری عہدے داروں کو حلف کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب قرار دیاگیاہے ۔ تاہم صدر کی ایک ہی ترجیح ہے کہ وہ کس طرح بہترین انداز میں بلاول کی سیاسی تربیت کریں تاکہ وہ اس خاردارمیدان میں اپنے مخالفین کو چاروں شانوں چت کرسکیں۔ اس وقت بلاول کو اگلے چند ماہ میں شروع ہونے والی انتخابی مہم کے لئے بھی تیار کرنا ہے تاکہ پیپلزپارٹی کے لئے وہ ، وہ کام کر سکیں جو ان کے والد عدالتوں کے فیصلوں اور سیکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر نہیں کر سکتے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی آصف زرداری اپنی جماعت کی انتخابی مہم نہیں چلا سکے تھے کیونکہ وہ صدمے میں تھے۔ مگر ان میں بھٹو والی طلسماتی طاقت نہیں کہ ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے جلسے میں انہیں سننے کیلئے آئیں۔ وہ عام سے پبلک اسپیکر ہیں اور کراوئڈ پلر نہیں ہیں۔ یہ سارا کام بلاول سے لینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جن میں اپنی والدہ اور اپنے نانا کی قابلیتوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ ملک کے مخصوص حالات کی وجہ سے انتخابی مہم میں بلاول کی سیکیورٹی بڑا مسئلہ رہے گی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس قومی سطح پر کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جو لوگوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔ یہ مسئلہ سب سے شدید پنجاب میں ہے جہاں پیپلزپارٹی ایک ایسے شخص (منظور وٹو)کے حوالے کر دی گئی ہے جن کی سیاسی وفاداری پر بہت سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے سوا کسی سے وفادار نہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نوجوانوں کیلئے اپیل کو توڑنے کیلئے نون لیگ نوازشریف کی دختر مریم نواز کو میدان میں لے آئی ہے اور انہیں لاہور کے ایک قومی یا صوبائی کے حلقے سے الیکشن لڑانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ انکے سیاست میں سرگرم ہونے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے بیٹے حمزہ کی نون لیگ کیلئے اہمیت اس لحاظ سے کہ وہ نوجوانوں کو اپنی جماعت کی طرف کھینچیں گے ذرہ کم ہوئی ہے ۔
مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کے سیاست میں سرگرم ہونے سے کوئی بھی پارٹی لیڈر متاثر نہیں ہو گا۔ جوں جوں انتخابی مہم زور پکڑے گی مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آتی جائے گی۔تاہم یہ تو الیکشن کے نتائج میں ہی ظاہر ہو گا کہ وہ کس حد تک عمران خان جو اب 60 سال کے ہو گئے ہیں کی نوجوان ووٹروں سے کشش کو کم کر سکیں گی۔ پاکستان کی موروثی سیاست میں باپ اور مائیں اپنے بیٹوں،بیٹیوں، دامادوں اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کو اپنے وارث کے طور پر سیاست میں لاتے ہیں ۔ مریم نوازبھی ان میں ایک ہے ۔ یہ اچھا ہوا کہ انکے شوہر کیپٹن صفدر کو بظاہر سیاست سے الگ کر دیاگیاہے۔ شروع سے ہی نوازشریف نے اپنے دونوں بیٹوں کو سیاست سے بالکل علیحدہ رکھا ہے جنہوں نے ہمیشہ کاروبار کی طرف توجہ دی ہے۔ ایک برطانیہ میں ہیں اور دوسرے سعودی عرب میں۔ ان کی دوسری بیٹی جو سینیٹر اسحاق ڈار کی بہو ہیں کا بھی سیاست سے کچھ واسطہ نہیں صرف مریم کو ہی سیاست میں لایا گیا ہے ۔ جن کی اپنی بھی خاصی دلچسپی اس میدان میں لگتی ہے۔ 2000ء میں اپنے والد کی قید کے زمانے میں بھی انہوں نے کافی محدود سیاست کی تھی ۔اس وقت نون لیگ کی قیادت ان کی والدہ کلثوم نواز کے ہاتھوں میں تھی۔ پاکستان کے ایک اور اہم سیاسی خاندان ، گجرات کے چوہدری بھی اپنے نوجوان مونس الٰہی پر مزید سیاسی ذمہ داریاں ڈالنے کی تیاری میں ہیں تاکہ وہ ان کا نام اس کھیل میں روشن رکھ سکیں۔ ان کے مطابق این آئی سی ایل کے مقدمے میں مونس کو اس وجہ سے الجھایا گیا کہ ان کے مخالفین ان سے خوفزدہ ہیں ۔ تاہم یہ اس خاندان کیلئے اطمینان بخش ہے کہ مونس اسے الزام سے بری ہوئے۔ انہیں اب قاف لیگ میں بڑی اہم ذمہ داریاں دی جارہی ہیں جس کے بعد وہ پنجاب میں پارٹی کنویشن منعقد کر رہے ہیں ۔ آئندہ انتخابی مہم میں ان کے کندھوں پر کافی بوجھ ہو گا ان کی توجہ پنجاب پر ہی رہے گی۔ چوہدریوں کی کوشش ہے کہ اگر حالات ایسے بنے کہ ان کی پارٹی پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو مونس ہی ان کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ منظور وٹو کے پنجاب میں کودنے کے بعد چوہدریوں کی خواہش اور امیدیں کچھ متاثر ہوئی ہیں مگر سب کچھ کا انحصار انتخابی نتائج پر ہو گا ۔ اس روایتی سیاست کے حامل خاندان میں پرویز الٰہی کے دوسرے بیٹے کا سیاست سے کچھ لین دین نہیں وہ کاروبار میں مگن ہیں۔ چوہدری شجاعت کے بیٹے کاروبار پر ہی توجہ دے رہے ہیں ۔ پرویز الٰہی کے بھائی سیاست سے دور ہیں اور کاروباری ہیں۔ بلاشبہ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم اہم سیاسی لیڈر تھے مگر ان کے بھائی (پرویز الٰہی کے والد محترم ) صرف کاروباری تھے۔ نہ صرف شریف خاندان بلکہ چوہدریوں میں سیاست اور کاروبار کی کمال کا تال میل ہے۔ ایک شعبہ دوسرے کیلئے یقینا بہت ہی مددگار ہے ۔ بلاول کے والد بزنس مین ہیں اور صدر کے والد محترم بھی کاروباری تھے ۔
تازہ ترین