• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی آرڈی نینس قومی اسمبلی میں پیش

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آر ڈی نینس 2002میں مزید ترمیم کرنے کا آرڈی نینس قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیاہے۔ وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے آرڈی نینس پیش کیا۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس کی صدارت کی۔ آرڈی نینس پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) آر ڈی نینس 2018سے موسوم ہوگا۔ آر ڈی نینس کے اغراض و مقاصد میں کہاگیاہے کہ مجوزہ بل کا مقصد حکومت کے احکامات جن کی غرض و غایت پیمرا کو اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں سہولت بہم پہنچانا ہو، کے اجراء کے ضمن میں ایک خود مختار ادارہ بنانا نیز پیمرا اتھارٹی کی تشکیل نو کرنا بھی ہے۔ ہر گاہ معزز عدالت عدالت عظمیٰ کے احکامات کی تعمیل میں ڈویژن ھذا نے دستور پاکستان کے آرٹیکل19اور19الف کی تصریحات کے ساتھ پیمرا(ترمیمی) ایکٹ 2007کے طور پر ترمیم کردہ پیمراآرڈیننس 2002کی دفعہ5اوردفعہ6کو ہم آہنگ بنانے کے عمل کاآغاز کیا ہے ۔لہٰذا مذکورہ بالا اغراض کی تعمیل میں پیمرا کے کارہائے منصبی کی انجام دہی کو خودمختار اور آئینی تصریحات کے مطابق بنانے کی غرض سے یہ بل پیش کیا گیا ہے۔ اتھارٹی ایک چیئرمین اور آٹھ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ چیئرمین اور اراکین کا تقرر وفاقی حکومت کی جانب سے کیاجائے گا اور وہ ایسے اشخاص ہوں گے جو میڈیا، کاروبار، انتظام، مالیات، معاشیات یا قانون کے شعبے میں اپنی دیانتداری استعداد، مہارت اور تجربے میں مشہور ہوں۔ چیئرمین اور اراکین کے لئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے تسلیم شدہ کسی ادارے سے کم سے کم پیشہ ورانہ ماسٹر ڈگری یا اس کے مساوی تعلیمی قابلیت درکار ہو گی اور متعلقہ شعبہ میں25سالہ تجربے کے حامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے تقررکردہ ایک رکن جو اتھارٹی کا مستقل رکن ہو گا اور کل وقتی بنیاد پر کام کرے گا۔ دوسرے ممبران میں وفاقی حکومت کا بی ایس کا ایک افسر ہوگا۔ چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ممبرہوں گے۔ پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن کی جانب سے نامزد کردہ ایک رکن شامل کیاجائے گا۔ ہر ایک صوبائی حکومت کی جانب سے عوام الناس سے چار اراکین نامزد کیے جائیں گے ان میں سے خواتین اراکین دو سے زائد نہیں ہوں گی جنہیں وفاقی حکومت کی جانب سے محوری بنیادپر نامزد کیاجائے گا۔ اتھارٹی میں صرف دو بنائے عہدہ اراکین ہوں گے جیسا کہ ذیلی دفعہ(۱) کی شقات(ب) اور (ج) میں درج کیاگیاہے۔ اراکین ہر ایک اجلاس کے لیے ایسی فیس اور اخراجات وصول کریں گے جیسا کہ صراحت کیاجائے۔ بربنائے عہدہ رکن کے علاوہ، ایک رکن، اپنے عہدے سے سبکدوش سمجھاجائے گا اگر وہ اتھارٹی کی رخصت کے بغیر اتھارٹی کے تین متواتر اجلاسوں میں غیرحاضر رہتاہے۔ ادھر اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان ہیڈ کوارٹر کی7 منزلہ عمارت کو لیز پر دینے کےخلاف پیرکو ریڈیو پاکستان کے ملازمین احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شاہراہ دستور چوک کو بند کردیا جس سے ایوان صدر، سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ جانے والے لوگ منجمد ہوکر رہ گئے۔ احتجاجی مظاہرے کی اطلاع پر اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چوہدری ریڈیو پاکستان ہیڈ کوارٹرز پہنچ گئے اور نیشنل براڈ کاسٹنگ ورکرز ایسوسی ایشن کے سی بی اے عہدیداروں سے ملاقات کرکے احتجاج کی مدت کم کرنے کی کوشش کی مگرایسوسی ایشن کے چیئرمین احمد نواز نیازی، سیکرٹری جنرل محمد اعجاز اور مرکزی صدر چوہدری ارشد نے لیز پر دینے کا حکم واپس ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کااعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمارت لیز پر نہیں جانے دیں گے،بلڈنگ کو بچائیں گے ہماری زندگیوں کا اللہ مالک ہے، قومی ورثہ تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ اصلاحات کی گنجائش ہے ،وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے 692 کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت کو تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائی ۔شاہراہ دستور پر احتجاجی مظاہرے میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراطلاعات نے کہا کہ ہیڈ کوارٹرز ایک مہینے کے اندر منتقل نہیں کیا جارہا ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ملازمین سے مشاورت کی جائے گی، فواد چوہدری نے کہا کہ جب تک ملازمین اپنے کام کی صورتحال سے مطمئن نہ ہوں ادارے ترقی نہیں کرسکتے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے رہنماوں سنیٹر فرحت اللہ بابر، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ اور سابق وزیر اطلاعات مریم اور نگزیب نے ریڈیو پاکستان کے احتجاجی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان ایک قومی ادارہ ہے اور اسے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔مریم اورنگزیب نے اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس قسم کے اقدامات نہ کرے ۔ انہوں نے کہاکہ حزب اختلاف اصلاحات کیلئے حکومت کی حمایت کرے گی لیکن قومی اداروں کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیاجانا چاہئے۔ریڈیو پاکستان کے احتجاج کرنے والے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئےمریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پورے ملک کاٹھیکہ اٹھانے کا دعوی کرنے والوں سے ایک عمارت نہیں سنبھل رہی۔ ریڈیو سمیت قومی اثاثوں اور پاکستان کی علامتوں کو فروخت نہیں کرنے دیں گے۔ یہ کباڑئیے کی دکان یا اوایل ایکس نہیں۔ پی ٹی آئی کباڑئیے کی دکان چلانے کی اہل نہیں لیکن انہیں حکومت دے دی گئی۔ سرکاری املاک کو بیچنے اور کرایہ پر دینے کے بجائے جو سرکاری ادارے کرایہ پر ہیں، انہیں ایک جگہ کیاجائے لاہور میں ریڈیو ملازمین نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔ شرکاء نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر’’فیصلہ نامنظور ‘‘لکھا ہوا تھا۔ شرکأ نے مطالبہ کیا کہ فوری طور اس فیصلہ کو واپس لیا جائے کیونکہ ریڈیو ایک قومی ورثہ ہے اسکی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے جبکہ 5 سابق وفاقی اطلاعات سیکرٹریز خواجہ اعجاز سرور، سید انور محمود، سلیم گل شیخ، اشفاق گوندل اور منصور سہیل نے جو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹرز جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں نئی حکومت کی طرف سے سرکاری ریڈیو ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی بلڈنگ کو منتقل کرنے کے فیصلے پر شدید مایوسی اور اضطراب کا اظہار کیا ہے۔سابق وفاقی اطلاعات سیکرٹریز کاکہنا تھا کہ یہ فیصلہ شاید کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور صرف ریڈیو کے مالی معاملات کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کیاگیا یہ بات فہم سے بالا ہے کہ ریڈیو بلڈنگ کی لیز اور کرایے سے مجوزہ میڈیا یونیورسٹی کے اخراجات کس طرح پورے کئے جاسکیں گے۔انہوں نے یاد دلایا کہ میڈیا یونیورسٹی کے قیام کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک عشرہ پہلے امریکی یونیورسٹی کے تعاون سے منصوبہ تیار کیا تھا اس مقصد کے لئے سرکاری ریڈیو یا ٹی وی بلڈنگز کی فروخت یا کرایہ پر دینے کی تجویز پر کبھی غور نہیں ہوا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ حکومت مجوزہ میڈیا یونیورسٹی منصوبے کی پہلے سے تیار شدہ دستاویزات کا جائزہ لے اس سے کافی مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت وفاقی محتسب کی حالیہ رپورٹ کا بھی جائزہ لے جس میں سرکاری ریڈیو کے احیا کے ساتھ نیشنل یونیورسٹی آف کمیو نیکیشن سائنسز کے قیام کے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔سابق وفاقی اطلاعات سیکرٹریز کاکہنا تھا کہ ریڈیو بلڈنگ ایک قومی اثاثہ ہے جس کے ایک چھوٹے حصے میں ہیڈ کوارٹر دفاتر ہیں جبکہ باقی حصے میں سٹوڈیوز، غیرملکی زبانوں کےپروگرامز کی ٹرانسمیشن، پرو ڈکشن، انجینئرنگ اور براڈ کاسٹنگ سہولتیں فراہم کی گئی ہیں اس میں ریڈیو ورلڈ سروس، ریڈیو سنٹرل نیوز آرگنائزیشن ، کرنٹ افیئرز پروگرام، ایف ایم 101 ٹرانسمیشن اور اسلام آباد ریڈیو سٹیشن کام کررہے ہیں۔ ریڈیو اکیڈیمی کی بلڈنگ ان تمام قومی ضروریات کے لئے انتہائی قلیل اور ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سرکاری ریڈیو کی حیثیت کمزور کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور فیصلہ واپس لے۔
تازہ ترین