• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کے مطابق کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جائے لاہور ہائیکورٹ کا حکم۔
سیاست دوراں کا کام ہے کہ قومی مفادات کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرے، یہ نہیں کہ اسے سیاسی چپقلش کا عنوان بنا کر اپنی حکمرانی کا خواب پورا کرے، کالا باغ ڈیم بنانے کا تو سبز باغ بھی نہیں دکھایا جاتا، ہر بڑی پارٹی اس کی جان کی دشمن ہو گئی ہے، حالانکہ اپنی سیاست کالا باغ ڈیم بنانے کا نعرہ بلند کر کے زیادہ چمکائی جا سکتی ہے بشرطیکہ اسے تعمیر بھی کیا جائے، ماہرین نے کہہ دیا ہے کہ اس کی ساخت سے کسی کو کوئی نقصان نہیں بلکہ پورے ملک میں بجلی پانی کی فراوانی و ارزانی ہو گی، مگر یہ لیڈران ہیں جو مصر ہیں کہ

خود آپ اپنی سیاست سے خودکشی کریں گے
اب تو یوں لگتا ہے کہ کالا باغ ڈیم ایک دیو مالائی داستان ہے اور اس کے کردار ہمارے سیاستدان حکمران ہیں، جو اس باغ کو بناتے ہی نہیں کوئی اسے اجاڑے گا کیا۔ ہم ان کالموں میں بارہا کالا باغ ڈیم کی افادیت و اہمیت کا ذکر کرتے چلے آ رہے ہیں اور قوم بھی یہی چاہتی ہے، اگر آئندہ انتخابات میں بھی لوگوں نے ووٹ دیا اور کالا باغ ڈیم نہ لیا تو سمجھو کہ وہ محرومیوں کے دلدادہ ہیں، اور اس سے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ لوٹ مار انہیں بخشش و عطا اور رنج و الم کے دن خوشحال زندگی معلوم دیتے ہیں، تاہم یہ صریر قلم ہے کہ جرس طلب بن کر گونجتی رہے گی، شاید بندے نہیں تو فرشتے ہی سن لیں پھر بھی عوام کی ضرورت اور بدحالی کی صورت گری کرتے رہیں گے ہمیں کچھ ایسی توقع نہیں کہ شنوائی بھی ہو گی
غالب تیرا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بُلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
####
صدر زرداری کا کہنا ہے: آئندہ انتخابات بروقت اور شفاف ہوں گے، یہ کتنی اچھی خبر ہے اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے، اور ہم یاران نکتہ داں سے عرض کریں گے کہ اس بیان حقیقت ترجمان کو ”صنعت مغلوب“ میں ہرگز نہ پڑھیں ورنہ سب بھید کھل جائے گا۔ صدر گرامی قدر کی تقریر ہو یا بیان سن کر یوں لگتا ہے، کہ
گویا یہ میرے دل میں نہ تھا
بہرحال پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا
طبعاً صدر زرداری، فقیر منش ہیں ان پر امیر آدمی کا گمان نہیں ہوتا، یہ تو ان کا نام ہی کچھ ایسا ہے کہ دولت رکھنے کا معنی دیتا ہے، وگرنہ ان کے دونوں ہاتھ خالی ہیں، حالانکہ وہ سکندر بھی نہیں، مگر اس کا مقدر ضرور ہیں، آئندہ انتخابات بروقت ہوں گے اس بارے کیا کہا جا سکتا ہے، البتہ شفاف مان لینے میں کوئی حرج نہیں وہ اتنے کشادہ دل ہیں کہ مانگنے والا ان کے در سے خالی نہیں جاتا، یعنی وہ اپنی زنبیل بھی کھو بیٹھتا ہے #
یہ اعجاز ہے ان کی کشادہ دلی کا
آنے والے پانچ برسوں کے لئے انہوں نے پوری تیاری کر لی ہے، اگر لوگوں میں ”عقل“ نام کی کوئی چیز ہے تو ضرور ”زرداری کی پارٹی“ کو ووٹ دیں، اور اس تیر کا نشان یاد رکھیں جو پہلے بھی یہ کردار ادا کر چکا ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی
پاکستان پیپلز پارٹی اب بہت وسیع و عریض لگتی ہے، مگر یہ بھی ہے، کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرئہ خون نکلا
####
مولانا طاہر القادری فرماتے ہیں: موجودہ نظامِ انتخابات و سیاست عوام کا اصل دشمن ہے۔ لگتا ہے مولانا نے تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھا۔ اگر یہ موجودہ انداز سیاست و انتخاب بھی نہ رہا تو پھر اس کی جگہ آمریت ہی لے گی، اور ہمارے اندر اتنا دم خم نہیں کہ جو لنگڑی لولی جمہوریت سینے سے چمٹا کے بیٹھے ہیں۔ اس کو بھی پلاسٹر چڑھائے متحرک کر سکیں، مگر یہ ایک دن ضرور صحت یاب ہو جائے گی اور صحت مند آمریت سے تو اب بھی بھلی ہے، ہمارے ہاں جو جمہوریت اور نظام انتخاب رائج ہے، وہ اکثر و بیشتر آمریت کے بعد آیا ہے، اس لئے قادری صاحب کو یہ عوام دشمن لگتا ہے۔ عوام کے اصل دشمنوں سے چھپ کر خود کینیڈا میں آسودہ ہو گئے ہیں، یعنی ہر بلا کہ کز ”مغرب“ آید کے باوجود بھی وہ خود وہیں فروکش ہیں اور یہاں ہر طرح کے پلوشن میں سانس لینے والے عوام کو منہاج القرآن کی بلڈنگ کے حوالے کر گئے۔ اگر انہوں نے یہ من پسند جلا وطنی اختیار کر ہی لی ہے، تو پھر خمینی بن کر لوٹیں اور نظام کو درست کر دیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے پاس ایک الطاف بھائی ہیں اب تو خیر سے دو دو ہو گئے ہیں، یہی کیا کم ہے کہ وہ بیک وقت اپنے روحانی تصرف کے زور پر شرق و غرب میں پائے جاتے ہیں، وہ بنفس نفیس مغرب میں اور بروح لطیف سکرین پر دکھائی دیتے ہیں، اگر یوں پیغامات بصری سے انقلاب آنا ہوتا تو الطاف بھائی کب سے زور لگا رہے ہیں مگر انقلاب تو کجا کراچی خون کی ہولی تک نہیں رک پائی، اگر آپ دونوں حضرات جو انقلاب آفرینی پر قدرت رکھتے ہیں یہاں آ جائیں اور مل کر نعرئہ مستانہ بلند کریں تو کوئی وجہ نہیں نظام انتخاب و سیاست کا قبلہ راست نہ ہو سکے۔ ورنہ بقول سعدی کہنا پڑے گا
زیں راہ کہ تو میروی اے اعرابی ترکستان است
اے بدر جس راہ تم چل نکلے ہو یہ راہ تو ترکستان کو جاتا ہے)
####
اداکارہ بابرہ شریف کہتی ہیں: فلموں یا ڈراموں میں کام کرنے کی کوئی حسرت نہیں۔ کہیں یہ فلمیں اور ڈرامے کیمو فلاج تو نہیں۔ چلو چھوڑو ہمیں کیا کہ ماضی میں ماضی تلاش کریں۔ بہرصورت یہ ہماری پہلی اداکارہ ہے جس نے ببانگ دہل استاد امام دین گجراتیئے کے انداز میں کہہ دیا ہے کہ انہیں اب فلموں ڈراموں میں کام کرنے کی حسرت ہی نہیں، لفظ حسرت اتنا جامع لفظ ہے کہ سارے حاشیئے سمیٹ لیتا ہے، اور حاشیہ آرائی ایک فن ہے جو اصل تحریر کو چار چاند بلکہ مالا مال کر دیتا ہے، بابرہ بڑی شریف تھیں اور ہنوز ہیں، مگر وہ فلموں ڈراموں کے قریب سے بھی نہیں گزریں گی۔ اچھا ہے کہ انہوں نے ان پرستاروں سے ترک علاقہ کا اعلان نہ کیا، جو یہ مالا جپتے رہتے ہیں
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہئے
بابر اعوان سے بابرہ شریف اچھی رہیں، کہ بروقت فیصلہ کر لیا اور ڈراموں وغیرہ سے پرے ہٹ گئیں، بابر اعوان بہت باصلاحیت انسان ہیں، زرداری نے ان کو بتکلف کھو کر اچھا نہیں کیا بابر اعوان سے زیادہ ”لائق فائق“ لوگ پارٹی میں دندنا رہے ہیں، ان کی رخصتی بھی اسی طور انجام دی جاتی پر کتھوں؟ ممکن ہے بابرہ نے یہ فیصلہ اس لئے بھی کیا ہو کہ اب فلمیں رہیں کہاں اور بالی وڈ تو انہیں ویزا جاری نہیں کرے گا، رہ گئے ڈرامے تو وہ چل رہے ہیں، چاہیں تو کوئی نیا ڈرامہ رچا لیں، اور حسرت کا کیا وہ کوئی چراغ حسن حسرت تو نہیں، کہ گئے تو لوٹ کر نہ آئے، وہ کیوں غالب کا عقیدہ نہیں اپنا لیتیں
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
####
تازہ ترین