• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض اوقات مجھے یوں لگتا ہے کہ روئے زمین پر ہم سے زیادہ عجیب و غریب قوم اور کوئی نہیں، اس کی وجہ غالباً وہ تضادات ہیں جو بحیثیت قوم ہم میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ تضادات اس قدر دلچسپ ہیں کہ ان پر باقاعدہ ریسرچ کی جا سکتی ہے اوراسی نیت کے ساتھ میں آج اس ریسرچ کی آؤٹ لائن یہاں بیان کر رہاہوں تاکہ جو صاحب یا صاحبہ یہ بیڑا اٹھانا چاہیں ،انہیں کوئی پریشانی نہ ہو:
1۔ٹیکس چوّنی ،سہولتیں امریکہ والی:پاکستان کے 18کروڑ عوام سال بھر میں زور زبردستی یا رضاکارانہ طور پر جتنا ٹیکس بھرتے ہیں ،اس سے ملک کی داڑھ بھی گیلی نہیں ہوتی ۔لیکن اس کے باوجود ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ حکومت سے اپنے لئے ان سہولتوں کی مانگ کرتے ہیں جو صرف امریکہ اور یورپ کے عوام کو ہی دستیاب ہیں ۔اٹھے بیٹھے جن ممالک کے نظام حکومت کے ہم قصیدے پڑھتے ہیں اور کبھی نہ خوش ہونے والی ساس کی طرح ان ملکوں کی مثالیں سنا سنا کر حکمرانوں کو طعنے دیتے ہیں ،وہاں کے عوام کی آدھی کمائی حکومت ٹیکسوں کی مد میں وصول کر تی ہے اور پھر جا کے انہیں وہ سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں ۔یہاں ہم چوّنی کا ٹیکس دینے کو تیار نہیں جبکہ مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت ہماری سات پشتوں کا بھی وظیفہ لگا دے۔اپنے ملک میں ہمیں وہ تمام حقوق چاہئیں جو جمہوری فلاحی ریاستوں میں ہوتے ہیں جیسے سوشل سیکیورٹی،بے روز گاری الاؤنس ،فوری اور سستا انصاف،وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے بدلے میں قانون کی پاسداری ہم پر لازم نہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہیلمٹ نہ پہننے پر کوئی جرمانہ عائد نہ کیا جائے البتہ اس کے نتیجے میں اگر حادثہ ہو جائے تو سرکار ہمیں داماد کی طرح ٹریٹ کرے اور مفت علاج کی وی وی آئی پی سہولت دے۔
2۔سب سے پہلے فلسطین: پوری دنیا میں ہم نے اسلام کے جھنڈے گاڑنے ہیں ،لال قلعہ فتح کرنا ہے، فلسطین کے مسلمانوں کے درد کا درماں کرنا ہے… اور بھی بہت کچھ کرنا ہے مگر کسی محنت اور پلاننگ کے بغیر۔دنیا کا اصول ہے کہ اگر کسی دشمن کو زیر کرنا ہو تو اس کے مقابلے میں زیادہ محنت کی جاتی ہے ،جدید ذرائع سے استفادہ کیا جاتا ہے ،ٹیکنالوجی کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے ،نت نئی ترکیبیں لڑائی جاتی ہیں ،حیران کن منصوبہ بندی کی جاتی ہے ،علم اور معلومات کے ذخیرے کام میں لائے جاتے ہیں ،تب کہیں جا کر ان خواہشات کی تکمیل ہو سکتی ہے ۔فقط جمعے کی نمازمیں فلسطین کی آزادی کی دعا مانگنے سے کام نہیں چلتا۔ ہم چونکہ پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے ہی کام چلا رہے ہیں سو محنت کی کیا ضرورت!3۔امریکہ قابل نفرت ،ویزہ گلے کا ہار: پاکستانی، امریکہ کو اپنا دشمن ملک سمجھتے ہیں ۔امریکہ کے کرتوت ہی ایسے ہیں کہ کروڑوں ڈالر کی بے معنی اشتہار بازی کے باوجود اس کا امیج بہتر نہیں ہو پاتا ۔ایک ڈرون حملہ اور ایک ریمنڈ ڈیوس ،امریکہ کی کیتی کرائی پر پانی پھیرنے کے لئے کافی ہے ۔لیکن تضاد یہ ہے کہ اسلام آباد کے سفارت خانوں میں ویزے کے حصول کے لئے سب سے طویل قطار امریکہ کے سفارت خانے کے باہر ہوتی ہے جہاں ذلت کے رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں مگر کیا کریں !اس کافر ملک کا ویزہ تمام ڈرون حملوں اور ریمنڈ ڈیوسوں سے بڑھ کر پیارا ہے ۔ اور پھر ایک ویزے پر ہی کیا موقوف،اگر ہمیں اس کی شہریت حاصل کرنی ہو تو ہم وہ حلف بھی اٹھانے کو تیار ہیں جس کی رو سے ہمیں ڈرون آپریٹ کرنے کو کہا جائے تو بھی ہم انکار نہیں کرسکتے ۔یہ تمام باتیں اپنی جگہ ،پر…امریکہ کا جو یار ہے ،غدّار ہے غدّار ہے ۔
4۔تبلیغ صرف ہمارا حق ہے :فرانس میں مسلمان خواتین کے حجاب لینے پر پابندی ہے ،کتنی غلط بات ہے ! سوئٹزر لینڈ میں مسجد کے مینار تعمیر کرنے کی اجاز ت نہیں، کتنی بری بات ہے !برما میں مسلمان قتل ہو رہے ہیں،کیسا دوہرا معیارہے بین الاقوامی میڈیاکا! لیکن کیا کوئی یہ بتائے گا کہ اپنے ملک میں ہم اقلیتوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں؟ ہمیں پورے یورپ،امریکہ ،افریقہ میں تبلیغ کی اجازت ہونی چاہئے اور ہے ،ہمارے بھائی بہن گروپس کی شکل میں دور دراز ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے لئے جاتے ہیں اور الحمد للہ لا تعداد غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کرتے ہیں لیکن کیا ہم یہی سہولت کسی غیر مسلم کو اپنے ملک میں دینے کے لئے تیارہیں؟تبلیغ تو دور کی بات ،ان کی تو عبادت گاہیں محفوظ نہیں ۔(اور بائی دی وے اپنی بھی محفوظ نہیں )کینیڈا جیسے ملک میں جمعے کی نماز کے دوران نمازیوں کی تعداد بڑھنے کی صورت میں انتظامیہ خصوصی طور پر مسلمانوں کو مسجد سے باہر جگہ کی سہولت فراہم کرتی ہے اور اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ اس میں کوئی رخنہ اندازی نہ ہو۔کیا یہاں کوئی اقلیت ایسا کرنے کی جرات کر سکتی ہے؟ ہمیں فرانس پر سخت اعتراض ہے کہ اس نے مسلمان خواتین کے حجا ب پر پابندی لگائی مگر جب یہاں میراتھن ہوئی تو اسلامی جماعتوں نے شور مچایا کہ غیر ملکی عورتیں نیکر پہن کر نہیں دوڑ سکتیں …فرانس کی ثقافت اور سیکولرازم کی پابندی ہم پر لاز م نہیں البتہ یہاں کوئی فرانسیسی عورت اپنی مرضی کا لباس پہن کر آ جائے ایہہ نئیں ہو سکدا!
5۔کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا: جب بھی ملک میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے ہم ایک گھسا پٹا بیان جاری کرکے شتر مرغ کی طرح اپنی گردن ریت میں دبا لیتے ہیں کہ ”کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا ۔“ اس دوغلی پالیسی کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسلمان دہشت گردی نہیں کر سکتا، درحقیقت یہ کام کسی کافر کا ہے ۔چہ خوب ۔حالانکہ کہا یہ جانا چاہئے کہ جو لوگ بھی یہ دہشت گردی کر رہے ہیں ،وہ اس کے نتیجے میں دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں ۔لیکن ہمارا سنگ دلانہ تضاد یہ ہے کہ ہم اپنی ہی مارکیٹوں، بازاروں، مسجدوں، درباروں ،عورتوں ،بچوں اور جوانوں پر ہونے والے خود کش حملوں کے جواز تلاش کرکے گمراہی پھیلاتے ہیں اور ایک نئی دہشت گردی کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔بقول شخصے اس ملک میں سور کا گوشت حرام ہے لیکن انسان کا خون حلال!
6۔اخلاقیات صرف بہنوں کیلئے: ”تم نے سر پر دوپٹہ کیوں نہیں لیا؟تم نے فلاں لڑکے سے بات کیوں کی؟ تمہیں کو ایجوکیشن میں پڑھنے کا شوق کیوں ہے ؟ تم بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلا کرو۔“ یہ وہ اخلاقی درس ہے جو جوانان پاکستان اپنی بہنوں کو روز اوّل سے دیتے ہیں لیکن جب یہی جوان دوسروں کی ماؤں بیٹیوں کے ساتھ کالجوں میں پڑھتے ہیں،بسوں میں سفر کرتے ہیں ،بازاروں گھومتے ہیں تو ان کی نظریں قابل دست اندازی جرم کی مرتکب ہوتی ہیں ۔اپنی بہن کے ساتھ کوئی چائے پیتا پکڑا جائے تو غیرت کے نام پر قتل ،دوسرے کی ہمشیرہ کے ساتھ ”ڈیٹ“ جائز!
7۔تم ایجاد کرو،ہم عیش کریں:ہمیں کافروں کی ایجادات استعمال کرنے میں کوئی تامل نہیں ۔انٹر نیٹ ،وائی فائی ،تھری ڈی ،آئی پیڈ،ایل سی ڈی،سمارٹ فون سب ہمارے لئے جائز ہیں ۔لیکن جس سائنسی اور تخلیقی عمل کے نتیجے میں یہ ایجادات سامنے آتی ہیں ، اس عمل سے گذرنے کیلئے ہم تیار نہیں اور بعض حالتوں میں تو ہم اس عمل کو ہی سرے سے نا جائز سمجھتے ہیں ۔سائنسی ایجادات کا انقلاب در اصل سائنسی سوچ اور طریقہ کار اپنانے کا انقلاب تھا جس کے تحت مغرب نے ہر چیز کو رد کر دیا جو حواس یا عقل سے ثابت نہیں ہوتی تھی ۔ہم اس طریقہ کار پر تو یقین نہیں کرتے کیونکہ وہ ہماری روایتی سوچ سے متصادم ہے مگر سمارٹ فون کا نیا ماڈل لینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں ہم!
تازہ ترین