یہ مقدمہ اتنا مشکل نہیں تھا جتنا بنادیا گیا۔ کسی مقدمہ کو خراب کرنا ہو تو اس میں غیر ضروری لوگوں کے نام ڈال دو خاص طورپر اگر قتل کسی سیاست دان کا ہو یا قتل سے سیاسی فائدہ اٹھانا ہو۔ہم اکثر قتل اور قتل کی سازش کو ملا کر دیکھتے ہیں اور نتیجےمیں اصل قاتل بچ جاتے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو کے مقدمہ قتل میں کچھ ایسا ہی ہوا۔
یہ بھٹو خاندان کا المیہ ہے کہ بھائی کا قتل بہن کے دور حکومت میں ہوا مگر میں نے بے نظیر بھٹو کو کبھی اتنا بے بس نہیں دیکھا جتنا اس مقدمہ قتل میں وہ نظر آئیں۔ اس قتل کو بنیاد بناکر سابق صدر سردار فاروق لغاری مرحوم نے پی پی پی کی حکومت کو برطرف کردیا جس سے اور بھی سوالات نے جنم لیا۔
آج 22سال گزر جانے کے باوجود اس قتل کی اصل کہانی اور کردار سامنے نہیں آسکے۔ عین ممکن تھا کہ اس میں سازش نہ ہو مگر مرتضیٰ بھٹو سے پولیس کی نفرت کی کہانیاں موجود ہیں۔ یہ عجیب کیس تھا جس میں دو FIRتھیں۔ ایک پی پی پی (شہید بھٹو) والوں کی پولیس والوں کے خلاف اور ایک ریاست کی مرتضیٰ کے کارکنوں کے خلاف۔ چند سال پہلے تمام ملزمان بری ہوگئے اور یہ سوال حل طلب ہی رہا کہ قاتل کون! مگر یہ دلچسپ امر ہے کہ جتنے پولیس افسران ملزمان بنے ان کی ترقی کبھی نہ رکی اور جیل میں ہوتے ہوئے بھی ان کے گریڈ میں اضافہ ہوتا رہا۔
آج وہ اسپتال ایک پلازہ بن گیا ہے ۔ ایک اسپتال کو کیسے یہ اجازت ملی، کس نے دی یہ بھی اس کی اہم کڑی ہے جو حل طلب ہے۔ یہ قتل بھٹو خاندان کی تقسیم کا باعث ہی نہیں بنا بلکہ پی پی پی کی سیاست میں بھی تبدیلی لایا جس کا احساس بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہمیں نظر آتا ہے۔ اس وقت اگر مرتضیٰ زندہ ہوتا؟
یہ فیصلہ کس کا تھا کہ مرتضیٰ کے قافلے کو روکا جائے جبکہ اس وقت کی وزیر اعظم کی وزیر داخلہ اور IGسندھ کو ہدایت تھی کہ مرتضیٰ کے مسلح لوگوں کو اس وقت گرفتار کیا جائے جب مرتضیٰ کراچی سے باہر ہو۔ بے نظیر اپنے بھائی کی نفسیات کو سمجھتی تھی۔ا سے اپنے بھائی کی طرز سیاست سے ہمیشہ اختلاف رہا تھا اور 1986میں اس نے کوشش کی کہ مرتضیٰ اس کے ساتھ واپس چلے اور مسلح سیاست کو خیر باد کہہ دے۔ مرتضیٰ نے بے نظیر کو خبر دارکیا کہ وہ جنرل ضیا کے ہوتے ہوئے ’اس چال ‘ میں نہ آئے۔ یہ بات کئی سال بعد بے نظیر بھٹو نے مجھے بتائی۔ انہوں نے کہا کہ جب 1988کے الیکشن جیتنے کے بعد مرتضیٰ نے کہا کہ لولی لنگڑی حکومت لینے سے بہتر ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھ جائو تو میں نے اختلاف کیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ 11سال تک کارکنوں نے تکلیف اٹھائی ہے اب کچھ ان کی زندگیاں بہتر کرنے کا موقع ہے۔ مگر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میر صحیح تھا اور میں غلط۔
1992-93میں جب مرتضیٰ بھٹو نے واپس آنے کی تیاری کی اور اعلان کیا کہ وہ مسلح جدوجہد کو خیر باد کہہ کر واپس آنا چاہتا ہے تو بے نظیر بھٹو کو یہ ایک جال نظر آیا۔ جو لوگ پاکستان میں مرتضیٰ کی واپسی کی مہم کی نگرانی کررہے تھے۔ ان کے حوالے سے اخبارات میں ہر طرح کی خبریں آرہی تھیں۔ اسی دوران میری ملاقات سبک مجید سے کلفٹن میں واقع ان کے دفتر میں ہوئی۔ انہی کے دفتر میں مرتضیٰ سے ٹیلیفون پر انٹرویو ہوا۔ یہ مرتضیٰ سے میری پہلی بات چیت تھی۔ا س کی آواز سے بھٹو کی یاد تازہ ہوگئی۔ وہ واپسی کا ارادہ کرچکا تھا جب میں نے بے نظیر کے خدشات کا ذکر کیا تو اس نے کہا یہ بے نظیر نہیں آصف زرداری بول رہا ہے۔
مگر یہ حقیقت ہے کہ مرتضیٰ کو لانے والے اس کے قتل کے بعد کبھی سیاست میں نظر نہیں آئے۔ اس دوران مرتضیٰ کے آنے تک بے نظیر اور نصرت بھٹو میں بھی اختلاف رائے واضح تھا۔ میں نے دونوں سے انٹرویو کیا۔ بیگم بھٹو میں واضح طورپر بیٹے کی واپسی کے حوالے سے سیاست دان سے زیادہ ماں کی ممتا جھلک رہی تھی۔ انٹرویو میں وہ بیٹی سے ناراض نظر آئیں۔ یہ ہمیشہ یہی کرتی ہے۔ ایک مرتبہ بھٹو صاحب مرتضیٰ کے لیے گاڑی لے کر آئے تو اس نے لے لی! ان کے انداز میں ممتا صاف جھلک رہی تھی۔ وہ مرتضیٰ کے الگ پارٹی بنائے جانے کے خلاف تھیں۔
مجھے وہ میٹنگ یاد ہے جو مرتضیٰ کے آنے سے پہلے سندھ کلب میں ہوئی۔ اس میں بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو، فخری بیگم، صغیر جعفری اور ایک دو اور خاندان کے لوگ شریک تھے۔ مرتضیٰ سے بات ہوئی۔ بے نظیر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ الیکشن کے بعد آئے( (1993بے نظیر نے یہ بھی کہا کہ وہ اور اس کے کچھ ساتھی پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ صورت حال کے مطابق آئے، مگر وہ تیار نہیں ہوا۔ چند دن بعد میں نے ایک رسالے کے لیے نصرت بھٹو کا انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ کلفٹن پر ایک اعلیٰ افسر نے آکر ان سے درخواست کی کہ اس کو آنے سے روکیں مگر میں نے غصے میں اسے نکال دیا۔
مرتضیٰ واپس آیا اور اپنی پارٹی بنالی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ بے نظیر کو نقصان نہیں پہنچا نا چاہتا تھا۔ بے نظیر بھی شاید یہی چاہتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1986میں وہ جلاوطنی ختم کرکے واپس آئیں تو 70کلفٹن میں پارٹی کے کارکنوں کو بلا کر کہا کہ پارٹی کا کوئی مسلح ونگ نہیں ہے۔ جو لوگ اب بھی وہی سیاست کرنا چاہتے ہیں وہ پارٹی سے جاسکتے ہیں۔ کچھ لوگ جن میں علی سنارا بھی تھا ساتھ چھوڑ گیا مگر کچھ سال بعد مرتضیٰ بھٹو کو انداز ہ نہیں تھا کہ بے نظیر کی گرفت پارٹی اور عوام پر مضبوط ہے۔ بیگم بھٹو ذاتی طورپر گھر گھر نہ جاتیں تو اس کا جیتنا مشکل تھا۔اس دوران میری اس سے کئی ملاقاتیں رہیں اور آخری ملاقات اس کی آخری پریس کانفرنس کے بعد ہوئی جس دن یہ حادثہ ہوا۔
20ستمبر ویسے بھی میری ذاتی زندگی کا اہم دن ہے کیونکہ یہ میری بڑی بیٹی کی پیدائش کا دن بھی ہے۔ جب مرتضیٰ نے مجھے جلسے میں چلنے کو کہا تو میں نے یہی کہہ کر معذرت کرلی کہ شام کو بیٹی کی سالگرہ ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے مبارک باد دی اور کہا بیٹی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ مجھے فوراً خیال آیا کہ وہ ابھی فاطمہ سے مل کر آیا ہے اور اسے منع کیا کہ وہ جلسے میں ساتھ نہ چلے۔
ہم دو تین صحافی گاڑی میں باہر نکلے تو کچھ مشکوک افراد آگے اشارے کرتے نظر آئے۔ رفعت سعید نے کہا ’کچھ گڑ بڑ ہے۔‘ میں سالگرہ میں تھا تو خبر آئی کہ 70کلفٹن کے باہر فائرنگ ہوئی ہے۔ خیال بھی نہیں تھا کہ معاملہ اتنا سنگین ہوسکتا ہے۔ مرتضیٰ کاسنا تو رخ اسپتال کی طرف تھا۔یقین نہیں آرہا تھا کہ جس شخص سے چند گھنٹے پہلے بات ہوئی۔ ساتھ چائے پی وہ خوبصورت جواں مرد ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔
ماورائے عدالت قتل کی پالیسی ہی غلط تھی۔ جب پولیس کو ایسی چھوٹ دے دی جائے تو پھر خون اس کے منہ کو لگ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب اس وقت کے پولیس چیف سے BBCکے نمائندے نے پوچھا تو انہوں نے کہا ’قانون سب کے لیے برابر ہے۔‘ یعنی ماورائے عدالت کا قانون۔ (جاری ہے)