• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنمائوں شہباز شریف، راجہ ظفر الحق، احسن اقبال، مریم اورنگزیب، مشاہد اللہ، عرفان صدیقی، پرویز رشید اور دیگر بہت پراُمید نظرآرہے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل یہ عدالتی بینچ گزشتہ کئی ہفتوں سے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو دی گئی اُس سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کررہا تھا جس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال قید، ایک ارب 29 کروڑ روپے جرمانہ، مریم نواز کو 7 سال قید، 32 کروڑ روپے جرمانہ اور اُن کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے ججز کے ریمارکس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ نیب پراسیکیوٹرنے نیب عدالت سے جس طرح اپنے حق میں فیصلہ لیا، آج وہ یہاں اُس طرح کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ اس بات کا اندازہ نیب کو بھی ہوچلا تھا، اِسی لئے فیصلے سے قبل نیب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت روکی جائے مگر وہاں بھی نیب کی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد ہائیکورٹ میں پیشیوں کے موقع پر نیب پراسیکیوٹر کی جھنجلاہٹ سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ زمین اُن کے قدموں سے سرکتی جارہی ہے۔بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں، 3 بجے جب دونوں معزز جج صاحبان نے اپنی اپنی نشستیں سنبھالیں تو کمرے میں موجود افراد کی نظریں ججز پر مرکوز ہوگئیں ۔ جیسے ہی جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’استغاثہ سماعت کے دوران لندن میں موجود جائیداد کا تعلق نواز شریف کے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہا، استغاثہ اس میں بھی ناکام رہا کہ مریم نواز کو نواز شریف پر عائد چارج شیٹ پر کیسے سزا دی گئی لہٰذا عدالت اِن کی سزائیں معطل کرنے کا اعلان کرتی ہے۔‘‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سنتے ہی کمرہ عدالت نعروں سے گونج اٹھا اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کمرہ عدالت سے باہر آکر سب سے پہلے اپنی والدہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ ’’اماں جی تہاڈے پتر دی سزا معطل ہوگئی جے۔‘‘ بعد ازاں جب نواز شریف اور مریم نواز کو اڈیالہ جیل میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا تو دونوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر اللہ کا شکر ادا کیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف مرکزی قیادت کے ہمراہ نواز شریف کو لینے خود اڈیالہ جیل راولپنڈی پہنچے اور میاں نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کو اپنے ہمراہ لے کر خصوصی طیارے سے لاہور روانہ ہوئے۔ اپنی رہائی کے موقع پر نواز شریف نے کہا کہ ’’میرا ضمیر مطمئن تھا اور مجھے یقین تھا کہ ایک روز انصاف ضرور ملے گا کیونکہ اللہ حق و انصاف کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ نواز شریف جب اپنی رہائش گاہ جاتی امرا پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے اپنی ماں کو گلے لگایا جس پر ماں نے کہا کہ ’’مجھے اُمید تھی کہ میرے بیٹے کے ساتھ انصاف ضرور ہوگا۔‘‘

اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد لگتا ہے نواز شریف کے ستارے گردش سے نکل آئے ہیں۔ جب وہ جیل میں تھے تو اُنہیں ایک اور سیاسی کامیابی کی نوید اُس وقت ملی تھی جب اُن کے سیاسی مخالفین کی جانب سے الیکشن کمیشن میں دائر مسلم لیگ (ن) سے نواز شریف کا نام خارج کرنے کی اپیل مسترد کردی گئی مگر نواز شریف اپنی رہائی کے باوجود کلثوم نواز کی وفات پر غمزدہ نظر آتے ہیں ۔اپنی اہلیہ مرحومہ کی قبر پر روزانہ حاضری دیتے اور کچھ وقت وہاں گزارتے ہیں۔ شاید اس طرح ان کے دکھی دل کو کچھ اطمینان حاصل ہوتا ہو کیونکہ انہیں اس بات کی کسک اور پچھتاوا ہے کہ وہ آخری وقت میں کلثوم نواز کے ساتھ نہیں تھے۔ نواز شریف اور مریم نواز نے فی الوقت سیاسی سرگرمیاں بھی ترک کر رکھی ہیں اور کلثوم نواز کے چہلم تک یہ امید نہیں کہ وہ دونوں کسی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

نواز شریف اور مریم نواز کے اڈیالہ جیل جانے سے قبل اُن کے بیانیے’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو بڑی پذیرائی ملی تھی اور یہ بیانیہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیا تھا ۔ انتخابات سے کچھ روز قبل نواز شریف اور مریم نواز کو جیل بھیج دیا گیا جس سے ن لیگ کو وہ انتخابی کامیابی حاصل نہ ہو پائی جو نواز شریف اور مریم نواز کے انتخابی مہم میں شمولیت سے ملنے کا قوی امکان تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف انتخابات سے پہلے والا جارحانہ انداز اپنائیں گے اور اپنے سابقہ بیانیے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ پر قائم رہتے ہوئے اپنی سیاست کا سلسلہ وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ٹوٹا تھا؟ (ن) لیگ پہلے ہی عام انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات میں بے ضابطگیوںپر جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں، اُن کا سدباب کیا جائے اور اس مقصد کیلئے آئینی و پارلیمانی حکمت عملی اپنائی جائے تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا (ن) لیگ احتجاجی تحریک کا راستہ اختیار کرے گی؟

اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ ہے کہ نیب وہ ادارہ ہے جو لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے اُنہیں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز نے جوانمردی سے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں۔ نواز شریف اور مریم نواز اپنی رہائی کے بعد عالمی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں، وہ جتنا عرصہ پابند سلاسل رہے، اُن کے کروڑوں چاہنے والوں نے اُنہیں فراموش نہیں کیا اور نہ ہی اُن کی یاد مدھم ہونے دی۔ نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی کے ضمنی انتخابات پر مثبت نتائج ضرور سامنے آئیں گے لیکن ضمنی انتخابات میں کچھ سیٹیں جیتنے سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ نواز شریف ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ سویلین بالادستی کیلئے کوشاں ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیہ تبدیل ہوتا ہے یا نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین