• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شدید اقتصادی بحران بنفس نفیس موجود۔امریکہ اور بھارت کا مستفید ہونا بنتا ہے،مرے کو مارے شاہ مدار۔بحران سے نکلنے کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ موجودہ اقتصادی بحران کو 1971ء کے سیاسی بحران کا ہم پلہ سمجھتا ہوں ۔ایسے حالات میں لیڈر شپ کی عقل و شعور سے دشمنی ،بحران کو دو چند رکھنے میں ممدو معاون۔’’ بھارت ایک قدم بڑھائے، پاکستان دو قدم بڑھائے گا‘‘،عمران خان کے خطاب اول کا حاصل،بھارت کو امن کا پیغام۔چند باتیں ملکی صورتحال سے متعلق ضرور،فقط سب زیب داستان۔اصل مدعا، بھارت کے لیے ملفوف پیغام ِمحبت۔بھارت نے ایسی تقریر کو کیاخاطر میں لانا تھا۔بغیر سوچے سمجھے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ ڈالا ،’’ وزرائے خارجہ جب نیو یارک میں موجود ہوں تو ملاقات کی سبیل نکالی جائے‘‘۔بغلگیر ہونے کے لیے جلدی یادباؤ ، منت سماجت کی سبیلیں ڈھونڈ رہے ہیں۔بھارت کا جواب نپا تلا ،70سالہ بھارتی پالیسی کا آئینہ دار،حقارت سے دھتکاردیا۔ مزید بھارتی فوج کے سپہ سالار نے ہرزہ سرائی میں ساری حدیں پھلانگ لیں۔حکمران تاثر عام کر رہے ہیں، ’’اسکینڈل کی زد میں وزیر اعظم مودی توجہ ہٹانا چاہتا ہے‘‘۔ ہمارے حکمران بھارتی ذہنیت کا یا تو ادراک نہیں رکھتے یا حسب معمول قوم سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔1947ء سے شروع نہرو، شاستری ،اندرا گاندھی، ڈیسائی ،نرسیما راؤ ، راجیو گاندھی، واجپائی، من موہن سنگھ ، مودی کوئی ایک،جس کے دور میںجنگ یابھارتی جنگی جنون نے ہماری زندگی اجیرن نہ رکھی ہو۔کوئی ایک بھارتی حکمران ،ایک دور بتادیں جب پاکستان بارے رویہ معتدل یا معقول رہا ہو۔مودی وہی کچھ کر رہا ہے ،چاہ رہا ہے جو جواہر لال نہرو سے شروع پالیسی ہے۔

فہم ،دانش،فراست سے محروم حکمران حل تو دور کی بات، پاکستان کو در پیش گھمبیر مسائل کا ادراک ہی نہیں ۔اللہ کا کرم کہ ہمارے عسکری ادارے پاکستان کو در پیش سیکورٹی خدشات سے کماحقہ واقف ہیں۔امریکہ، بھارت کی ساری حرکات و سکنات بمعہ خطے میں چاروں اطراف جاری سازشوں پر گہری نظر اور معلومات رکھتے ہیں۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ امن،جنگ،گفت و شنید جیسے معاملات سیاستدانوں کے ذریعے ہی ممکن ، بہتر بھی۔ سیاستدانوں کی اہلیت کتنی عامیانہ کیوں نہ ہو، انکی قوت فیصلہ، فہم و ادراک بحران میںمدد گار۔بدقسمتی کہ موجودہ بحران میں حکومت ِ وقت معمولی صلاحیت سے بھی فارغ ہے۔پاکستان کا اقتصادی بحران ایک لحاظ سے خود ساختہ۔ پچھلے چند سالوں کے سیاسی عدم استحکام نے ہی تو اقتصادی بحران کو جنم دیا ۔کاش کوئی بڑا،’’ ہمارے بڑوں کو‘‘ چار سال پہلے یہ بات ذہن نشین کراپاتا۔بدقسمتی اتنی جب نواز شریف کو نکالا تو اقتدار بخیر وخوبی قبضے میں ضرور آیا۔جن لوگوں کے حوالے کیا وہ معمولی سمجھ بوجھ سے کوسوں دور۔

پہلی تین کابینہ میٹنگز کی کارروائیاں (MINUTES) نکلوائیں ،سر پکڑ نا بنتا ہے۔پہلی میٹنگ میں اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی پر تین گھنٹے بحث ،باقی گھنٹے وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز کی دیواریں گرانے پر صرف ہوئے۔ کام کتنا صحیح کیوں نہ ہو،صحیح وقت کا انتخاب زیادہ اہم۔دوسری میٹنگ میں گھنٹوں بحث ، کفایت شعاری اپنا کر وطنی بحران سے نبٹنا ہے۔ وزیر اعظم کے ملازم 2 رہیں گے۔ وزیر اعظم ملٹری سیکرٹری کے گھر ( جس میں کبھی رہنا نہیں تھا ) رہیں گے۔ پرنسپل سیکرٹری ،ملٹری سیکرٹری، انفارمیشن سیکرٹری،اسٹاف ،رہائش گاہیںمع سہولیات جو اصل میں کروڑوں روپے کاخرچہ۔کیا آج گزارہ دو ملازموں پر؟ وزراء اکانومی میں سفر کر رہے ہیں یا خصوصی جہازمیں؟ وزیر اعظم مستقلاً بنی گالہ اپنے محل میںجبکہ ملٹری سیکرٹری گھر کی تزئین و آرائش پر کروڑوںکا خرچ بے مقصد۔ ہیلی کاپٹر کی شٹل سروس وزیر اعظم کو گھر سے لانے، چھوڑنے پر مختص ۔امریکی وزیرخارجہ پومپیو حکومت بننے کے تیسرے ہفتے پاکستان آدھمکے۔قومی لیڈر شپ اپنے حالات اورپومپیو دورے کی سنگینی سے بخوبی واقف تھی۔ نا اہل حکومت کو غیر ضروری ،مضحکہ خیز معاملات میں غرق دیکھا تو مجبوراً معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پڑے۔GHQ میں حکومتی ٹیم کو آٹھ گھنٹے ’’ آن جاب‘‘ ٹریننگ کا بندو بست کیا۔GHQ میں حکومتی ٹیم اور عسکری قیادت آمنے سامنے کی فوٹیج ہو یا جنرل باجوہ کی وزیر اعظم سے درجنوں ملاقاتوںکی پریس میں آنے والی تصاویر، اگر بنظر غائر جائزہ لیں ، حالات کی سنگینی کا اندازہ چہرے پرجمے تفکرات سے ہوجاتا ہے۔ سب کچھ کے باوجود نئی نویلی حکومت کاآخری خبریں آنے تک بحران کی سنگینی سے متعارف نہ ہونا،عسکری قیادت کا درد سربن چکا ہے۔بھارت کو امن پیغام، اقتصادی راہداری بارے کنفیوژن ،بغیر کسی مشترکہ اعلامیہ سعودی عرب او رامارات کادورہ ، امریکی وزیر خارجہ پومپیوکا دورہ اور بھارت پہنچنے پرتکلیف دہ بیان۔لگتا ہے پومپیو چیک لسٹ پکڑا گئے ہیں جبکہ حکومتِ وقت بھاگم بھاگ اندھا دھند چیک لسٹ پر عمل پیرا ہے۔وزیر اعظم کا یمنی حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی سپورٹ میں بیان بھی ہماری پالیسی کے بالکل برعکس ،چیک لسٹ کی عکاسی ہے۔سانحہ صرف اتنا نہیں کہ ہم بد ترین اقتصادی،سیاسی ،تزویراتی بحران کی گرفت میں ہیں۔لمحہ فکریہ،قیادت نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ کئی بری شہرت قائدین کو پھونک پھونک ،عدالتوں سے بچا بچا، بڑی محنت سے بامِ اقتدار پر پہنچایا گیا،ایسے لوگ ہر جگہ مؤثر۔ چند ایک کو چھوڑ کر ،نا اہل لوگوں کی بڑی تعداد اقتدار کے ایوانوں میں مضبوط نظر آتی ہے۔کیاوطن عزیز نالائقی کا بوجھ اُٹھا پائے گا؟30 دن مکمل ہوئے تو16 بنیادی فیصلے بدلنے پڑے۔یوٹرن کی روایت نے سیاست کو گھائل رکھنا ہے۔

ازراہ تفنن ،عمران خان اپنا ایک انتخابی وعدہ کروفر سے وفا کر چکے۔بار بار اعادہ کیا کہ’’ اقتدار نچلی سطح تک پہنچاؤں گا‘‘۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار( پنجاب )اوروزیر اعلیٰ محمود خان( KP) سے زیادہ اپنے اپنے صوبوں میں ان سے نچلی سطح بھلا اور کیا ہوسکتی تھی؟وفاقی کابینہ کی بھاری اکثریت بھی یہی کچھ اقتدار کا نچلی سطح پر منتقل کرنا،مطمح نظر،کامیاب رہے۔کیا بنے گا پنجاب کا؟ سوچ کر دل دہل جاتاہے۔ ایک سوچ یہ بھی کہ جہانگیر ترین کو بالآخرسپریم کورٹ سے ریلیف ملناہے۔ ایم پی اے کا الیکشن لڑ کر صوبہ چلانا، منصوبہ ہوسکتا ہے۔تب تک پنجاب کس حال میں ہوگا؟ سوچنا،روح فرسا۔پنجاب اور KP کے سارے وزراء براہ راست وزیر اعظم سے ہدایت لے رہے ہیں۔یعنی کہ وزیر اعظم کے مضبوط کندھوں پر ذمہ داریاں دو چند۔نہ صرف وفاقی کابینہ بلکہ دو صوبائی کابینہ کے براہ راست انچارج ہیں۔یہ ہے نئے پاکستان کا نیا انتظامی ڈھانچہ؟

دل کی گہرائیوں سے دعا مانگی تھی ۔اللہ تعالیٰ عمران خان کو وزیر اعظم بنائے ۔تاکہ کاریگر بھگتیں ۔کیا وطن عزیزنا اہل، بچگانہ حکومت کا متحمل ہو پائے گا؟ (جاری ہے)

تازہ ترین