• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’میرا بھائی مل گیا، انجیر درخت کا شکریہ‘

سال 1974 میں یونانی قبرصیوں اور ترک قبرصیوں کے درمیان تصادم میں جنگی صورت حال پیدا ہوگئی تھی جس کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصیوں لاپتہ ہو گئےتھے۔ دوران تصادم بے شمار افراد قتل بھی کیے گئے جن میں سے کچھ کی لاشیں اب تک لاپتہ ہیں، ان میں ایک شخص کی لاش کی شناخت حیرت انگیز طور پرکرلی گئی ہے۔

’احمت ہرجون‘ نامی ایک شخص جنہیں 40 سال قبل قتل کردیا گیا تھا ان کی لاش 40 سال سے لاپتہ تھی لیکن ناقابل یقین طور پر ان کے پیٹ میں موجود ایک ’انجیر‘ کے بیچ نےوہاں درخت اُگا دیا اور وہی درخت ان کی لاش کوبرآمد کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔

بھارتی اخبار کی رپورٹس کے مطابق احمت کے پیٹ میں موجود انجیر کے ایک بیچ سے اُگنے والا درخت جس جگہ پراُگا تھا اس بات نے وہاں کے مقامی لوگوں کو تجسس میں مبتلا کردیا تھا،کیونکہ وہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ممکن ہی نہیں ہے کہ کبھی درخت اُگایا جاسکے۔ علاقے کے لوگوں نے درخت کی موجودگی پر تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیاجس پر انکشاف ہوا کہ یہ درخت لاش کے پیٹ میں موجود بیچ کے باعث اُگا ہے۔

مزید تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لاش احمت کی ہےاور اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہاں صرف ایک احمت کی لاش نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ وہاں دو اور لاشیں بھی تھیں جنہیں احمت کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔

رپورٹس کا کہنا ہے کہ یونانیوں نےاحمت سمیت باقی دو افراد کو قتل کرنے کے بعد ایک غار میں پھینک دیا تھا بعد از اس غار کو بارود سے اُڑا بھی دیا گیا جس کے سبب غار میں ایک بڑا سوراخ ہوگیا ، اسی سوراخ سے غار کے اندر روشنی اور ہوا آتی تھی جس کی مدد سے درخت نےوہاں اُگنا شروع کیا۔

احمت کی بہن ، 87 سالہ منر ہرجون نے بھارتی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک گائوں میں مقیم تھے جہاں کی کل آبادی 4 ہزار لوگوں پر مشتمل تھی ان میں آدھے یونانی اور آدھے ترکش تھے، کچھ عرصہ ساتھ گزارنے کے بعد دونوں کے درمیان اختلافات ہونےلگے ، جب یہ شدت اختیار کرگئے تو سال 1974 میں زبردست جنگی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اسی دوران احمت نے ترکش تنظیم جوائن کرلی۔

منر ہرجون نے بتایا کہ اسی سال 10 جون کو یویانی ان کے بھائی کو اٹھا کر لے گئےتھے تاہم انہیں یہ معلوم نہ چل سکا کہ وہ احمت کو کہاں لے کر گئےہیں، کافی سال وہ اپنے بھائی کی تلاش کرتے رہے لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا، آخرکار انہوں نے ہمت ہار کر ان کو ڈھونڈنا چھوڑ دیا۔ منر کا کہنا تھا کہ سال 2011 میں محققین نے انہیں اطلاع دی کہ ان کے بھائی کی لاش مل گئی ہے۔

محققین نے منر کو یہ بھی بتایا کہ ان کے بھائی کی لاش کا پتہ ایک درخت کے ذریعے لگا ہے کیونکہ یہ درخت ان کے پیٹ میں موجود انجیر کے بیچ کے باعث وہاں اُگا تھا ورنہ عموماً ایسے پہاڑی علاقے میں درخت کا ہونا ناممکن ہے۔

احمت کی بہن نےمزید بتایا کہ درخت کی جگہ پر کھدائی کرکے وہاں سے ہدیوں کی شکل میں لاش کو نکالا گیا۔ ہڈیوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ لاش ان کے بھائی کی ہی ہے۔

آخر میں منر نے درخت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا بھائی مل گیا، اس انجیر درخت کا شکریہ۔‘

تازہ ترین