• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمرانی کی آرزو سب کو ہوتی ہے۔ لیکن یہ اتنی ظالم چیز ہے کہ خواتین سے ان کا حسن چھین لیتی ہے۔ حضرات سے ان کی معصومانہ مسکراہٹ۔ پھر بال اڑنے لگتے ہیں۔ راتوں کی نیند غائب ہوجاتی ہے۔ پورے ملک کا مالک ہونے کے باوجود چند افسروں کا محتاج ہوکر رہ جاتا ہے۔ ملٹری سیکریٹری کے مقرر کردہ اوقات اور اعمال کا پابند ہوتا ہے۔

عمران خان بھی اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے دل موہ لینے والی قاتل سی مسکراہٹ، سمٹتی جارہی ہے۔ لیکن انہیں زرداریوں اور شریفوں کے مقابلے میں ایک ترجیح حاصل ہے لوگ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس کی نیت نیک ہے اور وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ ابھی یہ طے نہیں کر پارہا کہ اسے سب سے پہلے کیا کرنا چاہئے۔اسد عمر کا مشورہ کچھ اور ہے ۔ شاہ محمود قریشی کا کچھ اور۔ فواد چوہدری کو تو یہ غم ہے کہ وزارت اطلاعات میں پہلے سے فنڈز نہیں ہیں۔ اخبارات میں ایک ایک صفحے کے اشتہار۔ وزیر اعظم اور اپنی تصویر کے ساتھ نہیں دئیے جاسکتے۔ نہ چینلوں پر فلمیں چل سکتی ہیں۔ یہ تو وہی پارٹی والی خالی خولی پبلک ریلیشنگ ہے۔ فائلیں بتاتی ہیں کہ پہلے یہ وزارت مالکان کو ،صحافیوں کو بیرون ملک دورے بھی کرواتی تھی۔ کوئی عقد مسنونہ میں بندھتا تھا تو ان کے ہنی مون کے انتظامات بھی کرتی تھی۔

سب پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ عمران خان اپنی مدت پوری کریں اور اپنے وعدے بھی۔ لیکن ساتھ ہی کچھ بے یقینی بھی کہ کیا ان کی ٹیم اس قابل ہے کہ 40سال سے جمع ہوتے اور ضرب پاتے مسائل کو حل کرسکے۔ دفاتر میں باتیں ہورہی ہیں۔ پارکوں میں صبح سویرے سیر کرنے والے یہی تبصرے کرتے ہیں۔ دوستوں کے ہاں لنچ، ڈنر پر جب مختلف شعبوں کے ماہرین ملتے ہیں۔ تو ملک کا درد بکھر بکھر جاتا ہے۔ تبدیلی آنے کا احساس کب ہوگا۔ اس کے اشاریے کیا ہوں گے۔ایک کارخانے کے مزدور نے کہا کہ مجھے تو اس وقت تبدیلی محسوس ہوگی جب میں اپنے گھر سے بغیر بسیں بدلے،ایک ہی آرام دہ بس یا ٹرین میں اپنی فیکٹری پہنچنے لگوں گا۔ ایک بزرگ جو اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ مختلف محکموں میں سرکاری خزانے کی لوٹ مار دیکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تو بلّے کوووٹ دیا ہے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا جس روز خبر آئے گی کہ سرکاری خزانے میں لوٹی ہوئی دولت کے اربوں روپے واپس آنے لگے ہیں میں سمجھوں گا کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔

ایک طرف تو بھارت کی طرف سے مذاکرات سے انکار نے مایوس کیا۔ دوسری طرف کرکٹ ٹیم نے دوسری بار بھارت سے شکست کھاکر قوم کو سخت بد دل کردیا۔ ہم کرکٹ کو میدان جنگ سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے چینل رزمیے پڑھتے ہیں۔ میچ سے پہلے سورمائوں۔ شاہینوں کی جنگ۔ پانی پت کی چوتھی لڑائی، دبئی میں۔ گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔ اتنی حوصلہ افزائی کہ کھلاڑی اس زعم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اب تو کھیلے بغیر ہی جیت جائیں گے۔ ہم سفارت کاری اور کرکٹ میں زیادہ فرق نہیں رکھتے۔ دو ایٹمی مملکتوں کے درمیان سفارتی جنگ بھی کرکٹ میچ والے نعروں ۔ اصطلاحات اور تراکیب کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ دھمکیاں۔ جنگی جنون والے حملے جو برسوں سے استعمال ہو ہو کر گھس پٹ چکے ہیں۔ اپنا تاثر زائل کرچکے ہیں وہی اب بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔

میں 1972میں شملہ مذاکرات سے ’جنگ‘ کے لئے رپورٹنگ کرتا آرہا ہوں۔ بھارتی وزرائے اعظم سے انٹرویو بھی کئےہیں۔ وزارت خارجہ۔ وزارت داخلہ کے وزیروں۔ سیکریٹریوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان کے ہاں پاکستان سےمتعلق ایک ہی پالیسی ہے۔ ایک سے جذبات اور ایک سا خوف۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں مختلف وزرائے اعظم مختلف علاقوں۔ مختلف جماعتوں کے ہندوستان سے متعلق مختلف جذبات اور پالیسیاں ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر ان کا ایک ہی نعرہ ہے اٹوٹ انگ۔ ہمارے ہاں مختلف تاویلات۔ بھارت اسی اختلاف رائے کو ہوا دیتا ہے۔ فائدہ اٹھاتا ہے۔ ان کا ایک یہ جملہ نصف صدی سے سنتے آرہے ہیں کہ ہم ایک تھے۔ ثقافت ایک ہے ۔ یہ دیواریں یونہی اٹھادی گئی ہیں۔ ہمارے بھی بعض رہنما، ادیب، شاعر جذبات کی اسی رَو میں بہہ کر یہی راگ الاپنے لگتے ہیں۔ بھارت نے دنیا کی بڑی جمہوریت کی شال اوڑھ کر مغرب کو لبھانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ اس میں کامیاب بھی رہا ہے۔ بھارت سے سفارت کاری اور دوسرے شعبوں میں مقابلے کےلئے نعرے بازی۔ جنگی جنون کی بجائے بہت ہی تحقیق۔ فکر۔ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایک جامع پالیسی اور سب کی ایک رائے ۔اس میں ہمیں چین سے سبق مل سکتا ہے۔ کس طرح چین نے بھارت کو مجبور کیا کہ اس سے تعلقات بہتر کرے۔ اس پر کسی وقت تبادلہ خیال کریں گے کہ چین نے ایوب خان کو کیا سمجھایا تھا ۔ بھٹو صاحب سے کیا کہا تھا۔ اور چند سال پہلے جب سرحدوں پر فوجیں آمنے سامنے تھیں تو چین نے مشرف صاحب کو کیا مشورہ دیاتھا۔

ہمارے دوست ڈاکٹر سیّد سجاد حسین۔ ملکی معاملات پر فکری گفتگو کے لئے جنرل(ر) معین الدین حیدر ۔ ایئر مارشل(ر) چنگیزی۔ نفیس صدیقی ایڈووکیٹ۔ نثار احمدکھوڑو کو کبھی کبھار بلالیتے ہیں۔ معین الدین حیدر بہت پیاری باتیں کرتے ہیں۔ سیاستدانوں اور فوج کے درمیان کشمکش کے اندرونی واقعات بڑے مزے سے سناتے ہیں۔ حالیہ محفل میں سب کا درد یہی تھا کہ عمران خان کو کام کرنے دیا جائے۔ حالات بہت مشکل ہیں۔ اس بات پر سب متفق تھے کہ جلد بازی بہت کی جارہی ہے۔

ایک اور تقریب میں پی ٹی آئی کے بانی رہنمااور ایم این اے نجیب ہارون کو سننے کا موقع ملا۔ ایک بینکر دوست سعید الدین صدیقی کے ہاں بینکرز تھے۔ اسٹاک ایکسچینج والے اور مصوّر۔ موضوع نئی حکومت ہی تھی۔ پی ٹی آئی کی اب تک اچھی بات یہ لگتی ہے کہ وہ تنقید برداشت کررہے ہیں۔ نجیب ہارون کہتے ہیں کہ کپتان اب بھی سب کی سنتا ہے۔ مشورے کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ برسوں سے معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ بیورو کریسی میں وہی افسر کلیدی عہدوں پر ہیں جنہیں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے تربیت دی ہے۔ عمران خان کا Plus Point یہ ہے کہ جب وہ ٹھان لیتا ہے تو اسے کرکے ہی آرام سے بیٹھتا ہے۔ یہاں سب دوستوں کا مشورہ تھا کہ عمران اور ان کے وزراء اب یہ ذمہ داری محسوس کریں کہ وہ 20کروڑ انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کررہے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت کی حکومت چلارہے ہیں۔

اب مقابلہ زرداری اور نواز شریف سے نہیں۔ دوسرے ملکوں کے بڑے بڑے گھاگ حکمرانوں سے ہے۔ اب جو قدم بھی اٹھائیں اس کے ہر پہلو کا جائز ہ لیں۔ اچھے برے نتائج کو پہلے سے بھانپ لیں۔ خارجہ پالیسی پر اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیں۔

مجھے آپ سے بات کرنا تھی عمران خان کی نفسیات ذخیرۂ الفاظ اور فیصلہ سازی کے انداز پر۔ آئندہ سہی۔ آپ بھی تو کچھ بتائیں کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔

تازہ ترین