• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہجو کے لغوی معنی مذمت ، برائی اور بدگوئی کے ہیں ۔ اصطلاحِ شاعری میں ہجو اُس نظم کو کہتے ہیں جِس میں کسی دوسرے شخص کی برائی بیان کی گئی ہو اور اُس کے عیب گنائے گئے ہوں ۔ہجوگوئی ایک بہت قدیم صنف ِ شعر ہے۔ عربی اور فارسی زبان میں اس کی بے انتہا مثالیں موجود ہیں۔ اردو زبان میں ہجولکھی گئی مگراس کا انداز بدل دیا گیا۔ اِسے علیحدہ ایک صنف کے طور پر بہت کم لکھا گیاہے۔ سودا کے دور میں اس صنف کو بہت زیادہ عروج ملامگر اس کے بعد اس کی قسمت میں زوال ہی رہا سب سے مشہور ہجو فارسی زبان کے عظیم شاعر فردوسی کی ہے جو اس نے محمود غزنو ی کے متعلق لکھی تھی۔
بسے رنج بردم دریں سال سی
عجم زندہ کردم بایں پارسی
چو برباددادند گنج مرا
چہ بد حاصلے سی و پنج مرا
اگر شاہ راشاہ بودے پدر
نہادے بلے برسرم تاج زر
وگر ماور شاہ بانوبدے
مرا سم وزر تا بزانو بدے
اور آخریہ کہ پرستار زادہ نیاید بکار۔۔۔ اِس کاترجمہ یہ ہے کہ” میں نے تیس سال بے انتہا تکالیف برداشت کیں اور اپنی فارسی سے میں نے عجم کو حیات جاوداں عطا کر دی۔ لیکن جب مرے خزانے کو تباہ کر دیا گیا تو مری پنتیس سال کی محنت کا ماحصل کیا تھا۔ اگربادشاہ کا باپ بھی بادشاہ ہوتا (غلام نہ ہوتا ۔ محمود کا باپ سبکتگین بھی الپتگین کا غلام تھا )تو وہ سو نے کا تاج میرے سر پر سجا دیتا اور اگر بادشاہ کی ماں لونڈی نہ ہوتی، بانو ہوتی تو میرے پاؤں میں سونے چاندی کا وہ ڈھیر لگتا جو میرے زانو تک پہنچتا ۔سچ یہ ہے کہ لونڈی کا بچہ کسی کے کام نہیں آتا“
ان دنوں پاکستان میں سیاست اور صحافت دونوں شعبوں پر اسی صنف ِ سخن کی حکمرانی ہے ۔تقریباً تمام لیڈران کرام کی گہر افشانیاں ہجویہ نظموں سے کسی طرح کم نہیں اور کئی کالم نگارتو ایسے ہیں کہ انہیں کالم نگار کہنے کی بجائے ہجونگار کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ایک بہت مشہور کالم نگار تو اپنا ہر کالم شروع ہی یہیں سے کرتے ہیں ”تم اس قدر غلیظ اور گندے کیوں ہو “شاید ان کا یہی خیال ہو کہ کوئی اچھی بات لکھنے سے پہلے یا کسی نیک کام کرنے سے پہلے شیطان مردود کہنا انتہائی ضروری ہے ۔ بہر حال ہروہ گالی جو اشاعت کے معیار پر پوری اتر سکتی ہے ان دنوں اخبارات میں اسے ضرور درج کیا جا رہا ہے یعنی ان دنوں سب سے زیادہ ہجویہ کلام سامنے آرہا ہے اور سب سے زیادہ ہجویہ کالم عمران خان کے خلاف لکھے جارہے ہیں۔شایدتمام پرانے گھوڑوں کو ڈر پڑا ہوا کہ کہیں اس بار عوام اس نئے گھوڑے کی پشت پرہاتھ نہ رکھ دے۔ٹیلی ویژن پر ہونے والے سیاسی سٹیج ڈرامے بھی رفتہ رفتہ ہجویہ مشاعروں میں بدلتے جارہے ہیں ہیں ۔مذکر اور مونث سیاسی رہنماؤں کی زبانوں سے ایسی ایسی ہجویات سننے کو ملتی ہے کہ الاماں ۔انٹر نٹ پران کے خاص خاص شارٹس اپ لوڈ کردئیے جاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ رہیں اور اب تو سیاسی جماعتوں کے شاعروں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف سچ مچ کی ہجویں لکھنی بھی شروع کردی ہیں ۔
تحریک انصاف کے شاعر نے جو نون لیگ کی ہجو لکھی ہے اس کے دوبند دیکھئے
کچھ گائیکوں میں یعنی لطیفوں میں پھنس گیا
دیگیں پکانے والے خلیفوں میں پھنس گیا
زر داریوں کے چند حلیفوں میں پھنس گیا
یہ ملک بدمعاش شریفوں میں پھنس گیا
جو گھر غریبوں کے تھے وہی ڈھا گئے شریف
ہر سمت تیرگی کی طرح چھا گئے شریف
تحریک ِ انصاف کے لیڈر عمران خان کے خلاف نون لیگ کے ایک شاعر نے جو نظم لکھی ہے اس کا ایک شعر بھی پیش کرتا ہوں:
سامنے بے داغ، اندر گند ہے عمران خان
سچ یہی ہے فوج کا پابند ہے عمران خان
مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس سے آگے یہ نظم اتنی گھٹیا ہو جاتی ہے کہ اسے یہاں درج تک نہیں کیا جا سکتا۔بہر حال اردو ادب میں سیاسی ہجویہ شاعری کا ایک نیاباب شروع ہو چکا ہے۔ یقینا وقت آنے پر اس ادب کی کئی کتابیں شائع ہوں گی۔سوشل میڈیا پر جگہ جگہ دکھائی دے گی۔ اللہ کرم کرے۔ دیکھتے ہیں معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے۔
تازہ ترین