• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز پیشتر جونہی ایک وفاقی وزیر کو مل کر نکلا تو مجھے تین چار افراد نے گھیر لیا، کہنے لگے’’ہم یہاں نائب قاصد ہیں، ہماری تنخواہ بیس پچیس ہزار ہے جبکہ سپریم کورٹ ، او جی ڈی سی ایل اور کئی دیگر جگہوں پر نائب قاصد ‘‘کی تنخواہ ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے، کچھ جگہوں پر ستر ہزار ہے، جب ہم سب نائب قاصد ہیں تو کیا ہم سب کی تنخواہ ایک جیسی نہیں ہونی چاہئے ، کیا ہمیں انصاف نہیں ملنا چاہئے ،جب ہماری سروس ایک جیسی ہے تو پھر ہم میں اور سپریم کورٹ کے نائب قاصد کی تنخواہ میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟‘‘یہ سوال واقعی بڑا اہم ہے، میرے علم میں وزارت اطلاعات کے کچھ ادارے ہیں جہاں ایم اے پاس لوگوں کی تنخواہیں چالیس پچاس ہزار ہیں جبکہ نائب قاصد کی تنخواہ نوے ہزار ہے میں نے ان سے کہا ، آخر آپ مجھے ہی کیوں کہہ رہے ہیں۔اس پر وہ بولے’’جنگ میں شائع ہونے والا آپ کا کالم بہت پڑھا جاتا ہے ، آپ کی تحریریں ظلم اور نا انصافی کے خلاف ہوتی ہیں ، اس لئے آپ سے گزارش کر رہے ہیں‘‘ خیر میں وہاں سے رخصت ہوا، سوچنے لگا کہ ہمارے ملک میں انصاف کی بہت ضرورت ہے ، جگہ جگہ ظلم بولتا ہے، نامور وکیل اپنی فیسوں کی محبت میں ظلم کا دفاع کرتے ہیں، مظلوم کو کچلتے ہیں ، لچھے دار گفتگو فیصلوں کو سامری بنا دیتی ہے۔ قاتلوں کو مظلوم بنا دیتی ہے اور مظلومین کو خطا کار بنا دیتی ہے کیا وکالت ہے کہ جعلی ڈیڈ کو بھی جرم نہیں رہنے دیتی۔

پچھلی حکومت نے احسن اقبال کے ذریعے سول سروس میں اصلاحات کی کوشش کی موجودہ حکومت ڈاکٹر عشرت حسین کے طفیل سول سروس میں اصلاحات چاہ رہی ہے، سول سروس میں کیا کیا نا انصافیاں ہوتی ہیں،اس پر پھر کسی دن لکھوں گا، آج نظام عدل کے حوالے سے گزارشات ہیں خاص طور پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ اور لوئر جوڈیشنری میں لمبے چوڑے تضادات ہیں یہاں میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ لوئر جوڈیشری معاشرے کے مکر و فریب اور گورکھ دھندے کو بہتر سمجھتی ہے ، مجھے میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ ایک تقریب میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے بتایا کہ انہیں سول ججز اور سیشن ججز کی کورٹس سے متعلق کچھ علم نہیں ہے۔ شاید اسی لئے معاملات میں الجھائو ہے، پاکستانی نظام عدل میں وائٹ کالر کرائم کرنے والے بچ جاتے ہیں اسی طرح ٹھوس شہادتوں کے بغیر کرپٹ افراد کو سزائیں دینا مشکل ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ایک گائوں میں چودھری نے چند افراد پر کتے چھوڑ دئیے۔ لوگ زخمی ہو گئے مگر پھر جب گائوں کی پنچائت کا فیصلہ آیا تو فیصلہ بول رہا تھا کہ لوگوں کو زخمی کتوں نے کیا ہے، اس میں چودھری کا کوئی قصور نہیں، اگر کسی ڈیڈ کا جعلی یا اصلی ہونا کوئی معانی نہیں رکھتا تو پھر اس کا عدالت میں جانا بالکل فضول ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے بیس پچیس سال پہلے کچھ فیصلے آئے تو میرے پوچھنے پر ایک وکیل نے کہا کہ ’’یہ سیاسی ججز ہیں کیونکہ انہیں سیاسی پارٹیاں لگاتی ہیں، لہٰذا ان کی سیاسی محبتیں فیصلوں میں بول رہی ہوتی ہیں۔‘‘ خیر یہ پرانی بات ہے اب نئ بات تو یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ججز کو لگانے والے ججز ہی ہیں، پارلیمانی بورڈ تو برائے نام ہے، پہلے سیاسی پارٹیاں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا انتخاب کرتی تھیں اب سیاسی جماعتوں کی جگہ مختلف چیمبرز نے لے لی ہے۔ ججز انہی چیمبرز سے آتے ہیں اور لوئر جوڈیشری سے کسی کو اوپر لایا ہی نہیں جاتا یا کوئی ایک آدھ لایا جاتا ہے حالانکہ الجھے ہوئے معاملات کو وہ بخوبی جانتے ہیں خاص طور پر فوجداری مقدمات، ابھی مجھے اخبارات کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ گیارہ ججوں کی نامزدگیاں جوڈیشل کمیشن کو بھجوا دی گئی ہیں،ان میں سے صرف ایک خاتون سیشن جج کو شامل کیا گیا ہے ، باقی سب وکلاء ہیں یہ بات لوئر جوڈیشری کے لئے نا انصافی سے کم نہیں کہ تیس بتیس سالہ سروس کے بعد بھی ترقی کے وقت ان کے نام آگے نہیں جاتے، پاکستان میں لوئر جوڈیشری کا حصہ بننے والے لوگ ایک مشکل امتحان پاس کر کے آتے ہیں، انٹرویو کے علاوہ نفسیاتی ٹیسٹ بھی ہوتا ہے مگر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں صرف نامزدگیاں ہوتی ہیں ، پاکستان میں عدالتی نظام کا حصہ بننے کے تین مراحل ہیں سول جج،ایڈیشنل سیشن جج، جج آف ہائی کورٹ، اس نظام میں اصلاحات ہونی چاہئیں ، یا تو فوج یا سول سروس کی طرز پر جوڈیشل سروس ہونی چاہئے تاکہ حق تلفیوں کا تذکرہ کم ہو، جب ہائی کورٹ کے لئے نامزدگیاں ہوتی ہیں تو یا تو کم از کم آدھے ججز نچلی عدالتوں سے لئے جائیں یا پھر سب کے لئے کوئی امتحان ہو، نفسیاتی ٹیسٹ ہو ، کوئی انٹرویوز ہوں یا اامریکہ کی طرز پر ججوں کے نام پارلیمنٹ کے ذریعے سامنے آئیں، ہائی کورٹ کے ججز کا بڑا حصہ ڈسٹرکٹ کورٹس سے آنا چاہئے کیونکہ وہ عرصہ درازسے معلومات کو دیکھ رہےہوتے ہیں ، عدالتی نظام کو اصلاحات کی ضرورت ہے، یہ کام ہو جانا چاہئے کیونکہ لوگ انصاف کے حصول کے لئے رل رہے ہیں۔ شاید اسی لئے سرور ارمان کہتا ہے کہ :

عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں

بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین