• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

The more things change, the more they stay the same. (French writer Jean Baptiste Alphonse Karr)

پرانے پاکستان میں قومی اہمیت کے کسی معاملے پر مٹی ڈالنے کا یہ طریقہ مستعمل تھا کہ سفارشات مرتب کرنے کے لئے حسب ذائقہ کمیٹی تشکیل دیدی جائے یا پھر کمیشن بنا دیا جائے مگر نئے پاکستان میں عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا ایک منفرد انداز متعارف کروایا گیا ہے اور وہ ہے ٹاسک فورس کاقیام۔ ویسے تو ٹاسک فورس ایک خالصتاً فوجی اصطلاح ہے جو امریکہ کی بحری فوج سے منسوب کی جاتی ہے مگر تبدیلی کی خواہاں حکومتوں کو یہ نئی اصطلاح پسند آئی تو غیر فوجی مقاصد کے لئے بھی ٹاسک فورسز بننے لگیں ۔دنیا بھر میں ٹاسک فورس کا مفہوم جو بھی ہو ،ہمارے ہاں اسے کمیٹی اور کمیشن کا متبادل ہی سمجھا جانا چاہئے ۔اردو لغت میں التوا، تاخیر، ٹال مٹول ،احتراز،گریز ،اجتناب اور راہ فرار اختیار کرنے جیسے جتنے الفاظ موجود ہیں ،ان الفاظ و معانی کے ٹھاٹھیں مارتے دریا کو کوزے میں بند کرنا مقصودہو تو اسے کمیشن المعروف ٹاسک فورس کا نام دیا جا سکتا ہے پولیس کلچر تبدیل کرنا ہو ،صحت و تعلیم جیسے شعبوں میں اصلاحات پیش نظرہوں ،عدالتی نظام کو صراط مستقیم پر چلانا ہو،حکومتی اخراجات کم کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا ہو ، سرکاری اداروں کی مجرمانہ غفلت کا سراغ لگانا ہو یا پھر کسی سیاسی و غیر سیاسی پہیلی کو سلجھانا ہو تو ایک ہی شافی وکافی نسخہ ہے کہ کمیشن بنا دیا جائے ۔موجودہ حکومت چاہتی تو قیام پاکستان کے بعد اب تک بنائے گئے لاتعداد کمیشنوں کی ضخیم رپورٹیں جاری کرنے کے لئے ایک نیا کمیشن بنا سکتی تھی لیکن کمیشن جیسی فرسودہ اصطلاح سے اسٹیٹس کو کی بُو آتی ہے اس لئے نئی خو اور نئی طرح ڈالنے کے لئے ٹاسک فورس کی رعب دار اصطلاح بروئے کار لائی گئی۔اخبارات اور ٹی وی چینلز پر دستیاب معلومات پر انحصار کیا جائے تو صرف وفاقی حکومت اب تک ایک درجن سے زائد ٹاسک فورسز تشکیل دینے کا فیصلہ کر چکی ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی اس نہج پر تیزی سے کام جاری ہے ۔

بظاہر یہ ٹاسک فورسز موجودہ گلے سڑے نظام میں انقلابی طرز کی تبدیلیاں کرکے اسے مفید بنانے کے لئے قائم کی جا رہی ہیں تاکہ فضول خرچیاں کم ہوں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا سراغ لگایا جا سکے یہی وجہ ہے کہ جو دولت لوٹ مار کرکے بیرون ملک لے جائی گئی ہے ،اسے واپس لانے کے لئے بھی ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے ۔اسی طرح کفایت شعاری اور حکومتی معاملات کی تنظیم نو کے لئے بھی ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جسے ’’ٹی ایف اے آر جی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ جس فراخدلی کیساتھ یہ ’’ٹاسک فورسزــ‘‘ تشکیل دی جا رہی ہیں،اس میں شامل کئے جا رہے افراد اعزازی طور پر بلا معاوضہ خدمات سرانجام دیں گے مگر ایک سرکاری افسر نے یہ انکشاف کرکے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ ٹاسک فورس میں شامل کئےجارہے افراد کو نہایت ’’تگڑا‘‘ اور معقول مشاہرہ دیا جا رہا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ انہیں کام کرنے کے لئےدفاتر ،سرکاری گاڑیاں ،عملہ اور دیگر وسائل بھی مہیا کئے جا رہے ہیں ۔پرکشش مراعات و لامحدود اختیارات کے باعث بھرتی ہونے والوں کا تانتا بندھ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹاسک فورسز کے ارکان کی تعداد میں حسب ِضرورت اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پرجو ٹاسک فورس کفایت شعاری کی غرض سے تشکیل پائی ہے اس کے ارکان کی تعداد 18ہے جبکہ سول سروس میں اصلاحات کے پیش نظر بنائی گئی ٹاسک فورس میں 19افراد کو شامل کیا گیا ہے ۔

طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جن کو اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کے بعد سفارشات مرتب کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ،انہوں نے خود کام کرنے کے بجائے سرکاری خزانے سے دستیاب وسائل کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے یہ کام آگے ٹھیکے پر دیدیا ہے ۔مثال کے طور پر سول سروس میں بہتری کے لئے بنائی گئی ٹاسک فورس نے تجاویز اور سفارشات مرتب کرنے کے لئے ایک انٹرنیشنل فرم ’’مکینزی ‘‘کی خدمات بطور کنسلٹنٹ حاصل کی ہیں اور اس مد میں غیر ملکی فرم کوسرکاری خزانے سے کروڑوں روپے دیئے جانے کا امکان ہے۔جب غیر ملکی کنسلٹنٹ کی رپورٹ آجائے گی تو پھر ٹاسک فورس میں بیٹھے ماہرین اس کا جائزہ لیں گے ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے معاشی گورکھ دھندے سے نابلد کوئی مجھ جیسا شخص ایف بی آر کے ماہرین سے رپورٹ تیار کروائے اور پھر اس کی نوک پلک سنوارنے کا دعویٰ کرے۔

اس ’’عمرانی ٹاسک فورس‘‘ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میرٹ پر متعلقہ شعبے کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر سول سروس میں اصلاحات کے لئے جو 19رُکنی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس میں سول سروس کے تمام کیڈرز سے قابل اور فرض شناس افسروں کا انتخاب کیا جاتا مگر اس میں محض دو ریٹائرڈ فیڈرل سیکرٹری شامل کئےگئے ہیں جبکہ باقی سب سیاسی بھرتیاں ہیں ۔ڈاکٹر عشرت حسین اس ٹاسک فورس کے چیئرمین ہیں۔اس ٹاسک فورس کے ارکان میں سے شاہد کاردار ،علی چیمہ ،عمیر جاوید اور مس ناہید درانی کا تعلق شعبہ تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر سے ہے۔شعبہ صحت اور تعلیم کے ماہرین سے سول سروس میں اصلاحات کا کام لینا ایسے ہی ہے جیسے ادیبوں اور شاعروں کی ٹاسک فورس بنا کر ان سے دفاعی حکمت عملی تیار کرنے کا کہا جائے ۔سیاسی تقرریوں کے بجائے اگر سول سروس کے مختلف کیڈرز بالخصوص سب سے بڑے گروپ ان لینڈ ریونیو اور پولیس سے کسی کو نامزد کیا جاتا تو شاید بہتری کی کوئی امید کی جا سکتی تھی ۔اسی طرح ہیلتھ ٹاسک فورس میں بھی ذاتی پسند ناپسند کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے ۔عمران خان کے کزن اور جنرل(ر) واجد علی خان کے صاحبزادے ڈاکٹر نوشیروان برکی جو گزشتہ پانچ سال کے دوران امریکہ میں بیٹھ کربغیر کسی عہدے کے خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کو چلاتے رہے ،انہیں ہیلتھ ٹاسک فورس کا چیئرمین لگایا گیا ہے۔فیڈرل سیکرٹری جو بربنائے عہدہ اس ٹاسک فورس کے ممبر ہیں اگر انہیں منہا کردیا جائے تو 7میں سے 3ارکان کا تعلق شوکت خانم اسپتال سے ہے ۔شوکت خانم کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان اور سی ایم او ڈاکٹر عاصم یوسف کو ٹاسک فورس میں شامل کیا گیا ہے ۔دو ارکان کا تعلق آغا خان اسپتال سے ہے ،لطیف شیخ سابق ڈائریکٹر فارمیسی سروسز ہیں جبکہ پروفیسر ذوالفقار بھٹہ ڈیپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس سے ہیں۔ اسی طرح انڈس اسپتال کراچی کے سی ای او پروفیسر عبدالباری کو بھی ٹاسک فورس میں شامل کیا گیا ہے۔کوئی انہیں بتائے کہ نجی اسپتال چلانے اور کسی ملک کے شعبہ صحت کے لئے پالیسی بنانے میں بہت فرق ہے۔اس پوری ٹیم میں صرف پروفیسر حامد زمان کی تقرری کو میرٹ پر کہا جا سکتا ہے جو بوسٹن یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔بہرحال اس ’’ٹاسک فورس‘‘ میں ہونے والی سیاسی بھرتیاں یہ بتانے کےلئے کافی ہیں کہ کچھ نہیں بدلا ،پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین