• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلا ہفتہ ہر طرح سے اور ہر طرف سے ہر ایک پر اور خاص کر ہماری آخری ہفتوں کی سانسیں لیتی ہوئی حکومت اور ان کے ساتھیوں پر ڈرون حملوں کا تھا۔ یہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی ڈرون کہاں سے کس پر گرے اور اس کا اثر کیا ہوا اور آگے چل کر کیا ہو گا، اہم سوالات ہیں۔ جب ہماری پوری کی پوری معیشت کو چلانے والی ٹیم یعنی وزیر خزانہ، اسٹیٹ بنک کے گورنر، FBR کے چیئرمین، سیکرٹری خزانہ اور کئی بڑے افسر ایک دھرنے کی شکل میں واشنگٹن میں بیٹھے تھے اور نہ جانے کیا کس امریکی افسر سے گفت و شنید فرما رہے تھے تو قریب ہی یعنی چند بلاک دور IMF والوں نے ان پر ایک ایسا ڈرون گرایا کہ پورا پاکستان ہل گیا۔ اپنی رپورٹ میں IMF نے ہر چیز کا پول کھول دیا اور پاکستان کو ایک ایسا مریض بتایا جس کو کوئی ڈاکٹر ٹھیک نہیں کر سکتا اور اس مریض کو خود ہی ڈرپ لگانی پڑے گی اور اپنے دل، جگر، دماغ کے آپریشن بھی خود ہی کرنے ہوں گے۔ ابھی اس مریض کا حال آگے چل کر مگر پہلے دوسرے ڈرون حملوں کا ذکر۔
وزیراعظم صاحب جو حال ہی میں صفحہٴ ہستی سے تقریباً غائب ہی ہو گئے تھے، اچانک اپنے بل سے نکلے اور رحمن ملک پر (جو حکومت کے وزیر داخلہ ہی نہیں بلکہ وزیراعظم، خارجہ، دفاع اور ہر دوسرے معاملے میں بولنا اپنا فرض سمجھتے ہیں) موبائل فون کا بم گرا دیا۔ ان کے تمام فیصلے رد کر دیئے گئے، فون دوبارہ کھول دیئے گئے اور یہ دعویٰ کہ موبائل فون ایک ہتھیار بن گیا ہے، ایک طرح سے جھوٹا قرار دے دیا اور اب وہ تمام فیصلے کیا ہوئے جب دنوں تک فون بند رہے، ملک میں چھٹیاں کر دی گئیں، موٹر سائیکل بند اور ساتھ ہی ایک خوف و ہراس پھیلایا گیا۔ وزیراعظم نے جو شٹ اپ کال اپنے وزیر داخلہ کو دی، وہ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے مان لی اور کیا خوب جملہ اپنے ٹوئیٹر کے صفحے پر لکھا جمعہ کی رات کو۔ فرماتے ہی: ”ڈاکٹروں نے مجھے آرام کا مشورہ دیا ہے تاکہ میرے گلے کو کچھ آرام مل سکے اور میں بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ میری جلد صحت یابی کی دعاؤں کا شکریہ“۔ وزیراعظم کے فیصلوں کے فوراً بعد جناب رحمن ملک کا بیمار ہونا اور ڈاکٹروں کا ان کو یا اصل میں ان کے گلے کو آرام دینے کا مشورہ انتہائی معقول بھی ہے اور بروقت بھی کیونکہ لگ رہا تھا کہ ملک صاحب اپنے گلے کی وجہ سے کسی بڑی ابتلا میں نہ پھنس جائیں اور کہیں باقی اعضا ان کے گلے کا بائیکاٹ نہ کر دیں تو وزیراعظم کا ڈرون تو ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگا اور ملک صاحب کا گلا دب گیا۔مگر جو سب سے اہم ڈرون چلا وہ کراچی پولیس نے الطاف حسین صاحب پر چلایا اور اچانک یہ اطلاع آئی کہ ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا ہے اور وہ بھی جب صدر زرداری کراچی میں موجود ہیں اور FIR ایک MQM حقیقی کے کارکن نے درج کرائی۔ اب یہ تو نا ممکن ہے کہ اس طرح کی FIR ایک ایسے لیڈر کے خلاف درج ہو جائے اور کسی بڑے سیاسی شطرنج باز کو اس کا علم ہی نہ ہو۔ FIR کی اطلاع کئی اخباروں میں چھپ گئی مگر پھر شطرنج کا کھیل شروع ہوا اور رات گئے پولیس کے اعلیٰ افسروں نے یہ بیان دیا کہ الطاف بھائی کا نام اس FIR میں موجود نہیں لیکن جو درخواست دی گئی اس میں ضرور الزام لگایا گیا تھا۔ اب یہ ایک پیچیدہ قانونی مسئلہ بن گیا ہے کہ ایک ہی درخواست میں اگر 5 یا 6 نام ہوں اور مقدمہ قتل کا ہو تو کیا پولیس کچھ ملزمان کے خلاف تو پرچہ درج کر لے اور کچھ نام نکال دے۔ ویسے بھی اب یہ کیس عدالتوں میں جا ہی رہا ہے مگر ایک تلوار تو لٹک گئی ہے ان سب کے سروں پر جن کا نام درخواست میں موجود ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اسی طرح کی ایک تلوار کچھ متحدہ کے لیڈروں کے سروں پر لندن میں بھی لٹک رہی ہے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں۔ دیکھنا یہ ہے کہ الطاف بھائی اب کیا کرتے ہیں۔
ایک اور ڈرون سندھ میں کئی پارٹیوں نے مل کر پی پی پی اور متحدہ کے خلاف 30 نومبر کو چلایا جبکہ کراچی کے مسئلے پر عدالت عالیہ نے انتخابی حلقوں میں تبدیلی کرنے کا حکم دے کر اور کئی بم جلا دیئے۔ جنرل مشرف صاحب لندن یا دبئی میں بیٹھ کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ کراچی میں مارشل لا لگایا جائے اور ایک کور کمانڈر سب کو ٹھیک کر دے گا۔ ان کے خالی کارتوس صرف میڈیا پر چل رہے ہیں۔
ان سارے حالات میں کوئی ذی عقل اگر یہ کہے کہ ملک ایک پُرامن اور پُرسکون انتخاب کی طرف جا رہا ہے یا ایک جمہوری انتقال اقتدار کس کے ریڈار پر نظر آ رہا ہے تو یہ ایک مجذوب کی بڑ ہی ہو گا۔ Panic کا تو یہ عالم ہے اقتدار کے ایوانوں میں کہ اسلام آباد میں کالے بکرے کا ملنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ روز اتنے صدقے دیئے جا رہے ہیں کہ ہر دروازے کے باہر سرخ خون جم گیا ہے۔ جو لوگ ان ایوانوں کی محفلوں سے باہر آ کر احوال مسند رہے ہیں وہ اس Panic کی مزید تصدیق کر رہا ہے۔ ایک اسی طرح کا مضمون ایک اخبار میں دو دن پہلے چھپا اور لکھنے والے کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ حکومت کے ناقد ہیں بلکہ وہ تو ایوان صدر اور وزیراعظم کے مستقل چکر لگانے والوں میں شامل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ”دیکھو… اگلے دس دنوں میں کیا ہوتا ہے“۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے مگر وہ کوئی تاریخ نہیں دے رہے۔ فرماتے ہیں بعض جماعتیں (جو کہ ٹھیک ہے) صدر زرداری کی موجودگی میں الیکشن کے لئے تیار نہیں مگر وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ بعض ادارے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں، اب کون سے ادارے زرداری کے تحت انتخاب نہیں مانتے، یہ انہوں نے نہیں بتایا مگر بات بڑی باریک اور خطرناک ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ الیکشن کا اعلان ہوا تو صدر زرداری خود ملک سے باہر چلے جائیں گے اور یہ بھی لکھا ہے کہ فوج زرداری کو دوبارہ صدر بنائے گی یعنی Panic مکمل ہے۔
یہ بھی خبریں گھوم رہی ہیں کہ کسی پیر شریف نے مشورہ دیا ہے کہ پہاڑوں کے پاس نہ رہیں اور اپنا اقتدار بچانے کے لئے سمندر کے قریب ڈیرے ڈالیں۔ کچھ لیڈر تو اس مشورے پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ان تمام عدالتی فیصلوں کی لسٹ بن گئی ہے جن پر حکومت نے عمل نہیں کیا اور جیسے ہی عبوری حکومت آئے گی یہ لسٹ اس کو دے دی جائے گی۔ مگر وزیر محترم احمد مختار کہتے ہیں، عدالتیں چاہے جتنے سیاسی فیصلے کریں، سیاست تو سیاست دانوں ہی نے کرنی ہے۔ ٹھیک ہے مگر سیاست کیا صرف وہی کامیاب ہے جو اپنے 5 سال پورے کرے، چاہے ملک اور لوگ ہر چیز کیلئے دہائی دیتے سڑکوں پر پتھر اور اینٹیں مارتے اور گولیاں اور آنسو گیس کھاتے کھاتے تھک جائیں اور پھر گھر روانہ ہو جائیں جہاں نہ بجلی ہو نہ گیس، نہ کھانا اور نہ پانی۔
اسی طرح کی سیاست کا ذکر جب میں نے وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے شیری رحمن کے ڈنر میں کیا تو وہ بولے مجھ سے کوئی سوال نہ کریں اور سارے جواب میں اپنی ذاتی حیثیت میں دوں گا۔ پھر وہ 40 منٹ ہر موضوع اور مسئلے اور لیڈر پر تبصرہ کرتے رہے، مگر وہ IMF کی رپورٹ سے پریشان بالکل نہیں تھے، کچھ بے بس ضرور نظر آئے۔ جب میں نے کہا کہ آپ تو اس طرح جواب دے رہے ہیں جیسے آنے والی عبوری حکومت کے وزیر خزانہ ہوں تو ان کی ہنسی اور آنکھوں میں چمک دیکھنے والی تھی۔ ساتھ ہی موجود FBR کے اسمارٹ چیئرمین بھی مسکرا رہے تھے اور کہنے لگے پاکستان کو بیرون ملک پاکستانی اپنے ڈالروں سے چلا رہے ہیں، اس لئے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یقیناً میں نے سوچا اگر اپنے ملک میں جس طرح حالات چلائے جا رہے ہیں تو صرف باہر سے بھیک اور دوسروں کی محنت کے پیسے پر ہی گزارہ رہ جائے گا، مگر خرچ کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ کس کا مال ہے اور کہاں سے آ رہا ہے۔ اب جناب صدر کا آج سے شروع ہونے والا دورہ ہی دیکھ لیں۔ وہ نجانے کتنے دن کیلئے کس مشن پر پہلے کوریا پھر دبئی، لندن، فرانس، ترکی اور معلوم نہیں کہاں کہاں کے دورے پر نکل گئے ہیں۔ ظاہر ہے زرداری صاحب کو ملک کے حالات بالکل نارمل نظر آ رہے ہیں اور یہ غیر ملکی دورے زیادہ ضروری ہیں مگر کیا واقعی ایسا ہے۔ لگتا تو یہ ہے کہ وہ اور ان کے دوست احباب کرسمس کی چھٹیاں منانے نکل کھڑے ہوئے ہیں یا حالات کچھ ایسے ہیں کہ ملک سے باہر رہنا ہی بہتر ہے مگر کب تک۔ 27 دسمبر بھی تو آ رہا ہے۔
تازہ ترین