• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس نگر میں بلیاں ابنائے آدمی و حوا کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں، چوہے نومولود معصوموں کا منہ نوچ لیں اور تہذیب کے سب سے اونچے، افضل منصب پر فائز روشنیوں اور قمقموں سے منور شہر ان کا تحفظ نہ کرسکیں تو ایسے سماج میں محاورے خود بخود بدل جاتے ہیں۔کئی سال پہلے پروفیسر اعتبار ساجد نے کتاب لکھی، عنوان تھا ”جابیل اسے مار“ اسی طرح ایک معرکتہ الآراء تحریر معرض وجود میں آئی جسے ”قتل جو اس نے لکھا“ (Murder She Wrote) کا ٹائٹل دیا گیا۔ آج کل ایک اور گرما گرم کتاب بازار میں ہے ”ایک قتل جو نہ ہوسکا“ جو ایک صحافی کی تحریر و تخلیق ہے۔ اب تو ہر روز ظلم کی داستاں رقم ہوتی ہیں۔ دواساز کباڑخانوں میں ،کبھی ملک کے طول و عرض اور کراچی کے شبستانوں میں روشنیوں کے شہر کی سب سے بڑی پہچان کلاکوف کی نال سے نکلی ہوئی ”برق تپاں“ نما شعلہ بار روشنی بن کررہ گئی ہے اب بامیان کے پہاڑوں، پکتیا اور انگشتیا کے جنگلوں سے زیادہ دہشت اور وحشت گلیوں اور بازاروں میں دستیاب ہے۔ اس لئے شہراچھے کہ بن، والا محاورہ بھی اب بدلنا چاہئے اس میں سے سوالیہ نشان نکال دینا چاہئے اور یہ کہنا عین حق پرمبنی ہوگا کہ امن کے لئے جنگل شہروں سے زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جگہ جتنی محفوظ ہوگی اور اتنی ہی تہذیب یافتہ کہلائے گی۔ جب بدتہذیبی شہروں کا اوڑھنا بچھونا بن جائے تو پھر تہذیب ڈھونڈنے والے اسے بیانوں میں تلاش کریں یا اپنے گریبانوں میں جھانک کر اسے ڈھونڈیں گے؟۔
بڑے اداروں میں وہ سارے جن کے ذمے انسانی زندگی کے بنیادی اصولوں، حقوق کے بنیادی تقاضوں، معاشرے اور اس کی بنیادی اکائیوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہے ان کی رپورٹیں دیکھ لیں، ان کی دستاویزات میں آپ کو سب اچھا کی تحریریں ملیں گی۔ اور انکے لئے سب اچھا کیوں نہ ہو ان کے بسیرے پہاڑوں کی چٹانوں سے زیادہ اونچی فصیلوں اور ان کی ٹرانسپورٹ کے بیڑے بلٹ ٹرین سے زیادہ تیز رفتار، محفوظ اور بلٹ پروف ہیں۔
پاکستان میں نظام سرمایہ داری کے ان گنت نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ نکلاہے کہ سرمائے کے بل بوتے پر عوامی مینڈیٹ کو جیب میں ڈال کر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے ”سجن بے پرواہ“ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ تیز رفتار میڈیا کا شکریہ کہ اب اس کردار کے حوالے سے نہ تو کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کچھ ثابت کرنے کی۔ نئی صحافتی دنیا کی سب سے نئی اور خاص بات یہ ہے کہ اس کے بڑوں کی پالیسی خواہ کچھ بھی ہو۔ گلی محلے ، شہر شہر کوچے اور قریے میں پھیلے ہوئے اس کے رپورٹرز دھماکہ خیز رپورٹنگ کے ذریعے اندرونی سنسر شپ کو ”برپشم قلندر“ سمجھتے ہیں۔
جس طرح جمہوری طرز حکومت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں، عین اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں چلتے پھرتے گوشت پوست کے انسان کسی کارپوریٹ پیداواری یونٹ کا ایندھن تو ہو سکتے ہیں لیکن ایسے نظام میں ان کی انسانی اور روحانی قدر و قیمت یا ویلیو، روپے، ڈالر، پاؤنڈ، سٹرلنگ سے ضرب تقسیم کے ذریعے ہی تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی نظام سرمایہ داری اور جاگیردارانہ طرز حکومت کے ساتھ ساتھ چور بازاری کے منشور اور روڈ میپ کے بنیادی اصولوں کی دین ہے کہ اب نظریاتی بنیادوں پر معرض وجود میں آنے والے اسلامی جمہوری میں ایک، دو، چار، دس انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ اس قابل نہیں سمجھی کہ اسے صفحہ اول کی سرخی بنایا جاسکے۔ حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ سرخیاں بنانے سے یا سرخیاں لگانے سے نہ انصاف ہوتا ہے اور نہ ہی قتل کابدلہ…!آج کل جس طرح اسلام آباد میں بہت سوں کے ارادوں پر یخ بستہ اوس پڑ رہی ہے اور گانچے کے پہاڑ برف کی سفید چادر سے ٹھٹھر رہے ہیں عین اسی طرح سے پاکستان میں الیکشن کمیشن کا عمل لرز اور کانپ رہا ہے۔ وہ شہر پاکستان جہاں ریاست ، سیادت اور قیادت کے اعلیٰ ترین بڑوں کی موجودگی میں ٹارگٹ کلرز شرماتے نہیں دندناتے ہیں وہاں اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک دوسرے پر سالہا سال سے بندوقیں تان کر دوڑتے ہوئے جتھے فوری طور پر انصاف پسند ہو جائیں گے اور الیکشن کا عمل شفاف اور منصفانہ ہو گا؟۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پچھلے سال سپریم کورٹ نے کراچی قتل عام پرازخود نوٹس لیا تواس وقت خوف کا یہ عالم تھا کہ میڈیاٹاک کے لئے سیاسی سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری کے باہر بنے پریس پوڈیم تک جانے سے کتراتے تھے۔ میں نے وفاق پاکستان کے وکیل کی حیثیت سے پاکستان کامقدمہ لڑا اب یہ ”کراچی قتل عام“ کے نام سے کتابی شکل میں آ چکا ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وفاق اور سندھ کی مرکزی قیادت اور بیورو کریسی کو اسلام آباد کے سب سے بڑے ریاستی ایوان میں جو بریفنگ میں نے دی اس میں کیس کے فیصلے سے 24 نکات وضع کرکے عمل درآمد کے لئے روڈ میپ فراہم کیا مگر اس ساری ایکسر سائزکا حال پھر کبھی سہی۔ مشیر کاظمی مرحوم کے یہ شعر اس کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
کچھ ہماری سیاست کی مجبوریاں
کچھ تمہاری سیاست کی مجبوریاں
ہم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں بڑھتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں رازِ محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گنوارا نہیں
پنجاب کے ایک عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ نے انسانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ تم پر کتے بازی لے جا رہے ہیں۔ اس لئے کہ انسان مالک کے در سے وفا داری نہیں کرتا۔ کتوں کو دھتکارا جاتا ہے اور وہ رات کو للکار کر پہرہ دیتے ہیں دن کو چھت کے بغیر سو جاتے ہیں مگر اپنی کمٹمنٹ نہیں چھوڑتے۔ احترام آدم کی مسلسل تذلیل و تضحیک پر کسی شاعر کا نیا تخلیق شدہ یہ محاورہ تھوڑے تصرف سے بہت حسب حال معلوم ہوتا ہے۔

کل سرِ بازار کتے نے یہ کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
اشر ف المخلوقات کے مقابلے میں چوپائے کس نے لاکھڑے کئے…؟ اور وہ کون ہے جس نے انسانی جان کی اس قدر تذلیل اور تحقیر کی کہ اب بلی کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان جا پہنچی ہے اور چوہا اس قدر معتبر ٹھہرا کہ وہ مقدس خاندان یعنی ہولی فیملی کے ہسپتال میں انسانی بچوں کو کتر کر پاؤں تلے روندنے میں آزاد ہے؟ہولی فیملی میں پیدا ہونے والا عبدالوہاب چوپائیوں کے زخم لے کر ہسپتال اسلام آباد کے نواح میں واقع اپنے گھر سرائے خربوزہ نامی گاؤں جا چکا ہے۔ عبدالوہاب بڑا ہو کر چور بازاری کے چوہوں کے سامنے لیٹ جائے گا یا سرائے خربوزہ کی چھری سے خربوزوں کی بجائے سماج میں گڑے چوپائیوں کے پنجے اور دانت نکالنے کی کوشش کرے گا اس کا فیصلہ سماج نے کبھی نہیں کرنا افراد نے کرنا ہے۔ آج ہم سب ایک ایسی گلی کے باسی اور مکین ہیں جس میں ظالم عفریت ہر روز آتا ہے اپنی مرضی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور پھر روند ڈالتا ہے۔ مرضی کے شکار کو دانتوں تلے دباتا اور گلی خون کے فواروں سے سرخ ہو جاتی ہے۔ ہم سب اس لئے خاموش ہیں کہ عفریت ابھی تک ہم تک نہیں پہنچا۔ گلی کے مکینو……!یادرکھو
کہ عفریت روزانہ شکار کرتا ہے اور گلی خالی ہوتی جا رہی ہے۔ گلی کے چوکیدار، گلی کے منصف، اس کے پہریدار اور گلی میں بسنے والے پڑوسی سجن ہیں مگر بے پرواہ۔ سب ڈریں اس وقت سے جب عفریت کے لئے صرف ایک گھر بچے جہاں شکار موجود ہو اور وہ آخری گھر یا پناہ گاہ ہمارا ہو…؟ اور ہمیں چھڑانے والا کوئی نہ ہو…۔
تازہ ترین