• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہری شہریت کے حوالے سے پی پی اور متحدہ کے 4 صوبائی وزراء سمیت سندھ اسمبلی کے 6 ارکان مستعفی ہو گئے۔
جب دہری پرسنیلیٹی اینٹ اکھاڑو تو مل جاتی ہے، پھر دہری شہریت رکھنے والے کو ووٹ دینے کے حق سے کیوں محروم کیا جائے اور ہمارے وہ دیانتدار محنتی با صلاحیت ٹیکنو کریٹس جو اب امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا کو چار چاند لگا رہے ہیں، اگر واپس آ کر سیاست میں حصہ لیں اور کوئی وزیر مشیر لگ جائیں اور یہ شام غریباں شام اودھ میں تبدیل ہو جائے، تو کیا حرج ہے؟ فیصلے سارے درست اور اپنی جگہ مناسب سہی مگر یہ جو دہری شہریت والے پاکستانیوں کو ووٹ اور کرسی سے محروم رکھا گیا ہے تو کیا یہ جمہوری عمل میں رخنہ ڈالنے کے مترادف نہیں۔ پاکستانی بہرصورت پاکستانی ہے، دیار غیر میں رہے گا تو اس کی حفاظت بھی کرے گا اس سے یہ شائبہ نہیں پیدا ہو تاکہ وہ اپنے ملک کے خلاف علم بغاوت بلند کر چکے ہیں، حب الوطنی میں وہ شاید ہم سے آگے ہیں، اس لئے اگر عدالت عظمیٰ اس سلسلے میں کچھ نرمی اختیار کرے تو یہ جمہوری نرمی ہو گی، اللہ تعالیٰ بھی قرآن کی بعض آیات منسوخ کر کے ان کی جگہ زیادہ بہتر آیات لے آیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ صحیفہ عدالت میں بہتر تبدیلی نہیں ہو سکتی اور کوئی نعم البدل فیصلہ نہیں لایا جا سکتا، بہرحال یہ ہماری چند سطریں نوائے سروش نہ سہی اپنے حق سے محروم افراد کے دل کی آواز تو ہے، ہم نے یہ مشکل مضمون بہت سلیس کر کے سپرد قلم کر دیا ہے کہ قلم کے خالق نے بھی قسم کھائی ہے #
ہوں وہ مضموں کہ مشکل ہے سمجھنا میرا
کوئی مائل ہو سمجھنے پہ تو آسان ہوں میں
####
وزیراعظم فرماتے ہیں امن و امان کی صورتحال خراب ہے کراچی پر سیاست سے بالا تر ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
گویا سیاست امن قائم نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مفاد پرستی سے عبارت ہے ، وزیراعظم کے بیان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے، مگر کیا کیجئے کہ ایک ہی لہجہ ہے حکومت کا، کہ اس میں زبر زیر کی تبدیلی نہیں آتی، کوئی مرصع لہجہ ہو تو اس پر گرہ بھی باندھی جائے #
نہیں بدلی زباں اس شوخ کی یہ کون کہتا ہے
میں جب جاتا ہوں اس کی بزم میں سٹ ڈاؤن کہتا ہے
کراچی، اجڑی مانگ، سندور سے خالی، گانے گہنے نوچ لئے گئے، چہرے کا غازہ خون کی تہہ سے بدل دیا گیا۔ اس کے پاؤں ہی نہ رہے تو پازیب کیا ڈھونڈیں، اب تو وہ مشاطہ بھی نہ رہی جب عروس وطن کراچی کا سنگار کرتی تو اہل ذوق کہتے #
مشاطہ رابگو کہ براسبابِ حسنِ یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید
(سنگار کرنے والی سے کہو کہ محبوبہ کے میک اپ میں کچھ اور اضافہ کر دے کہ تماشا ہم تک آن پہنچا ہے)
کراچی کو ہماری نگوڑی سیاست نے اجاڑا، اب کلموئی سیاست کا منہ کون سیدھا کرے گا جسے لقوہ ہو گیا ہے۔ پہلے سیاست کی اصلاح کیجئے ’راجا جی! پھر کراچی خود بخود اپنی جگہ پر آ جائے گا۔ ”بارلے“ تو حالات خراب کریں گے جب اندر والے چھیچھڑوں پر لڑیں گے، یہ کرسی پر آئندہ بھی بیٹھنے کی ہوس کہیں کرسی ہی کو اڑا نہ لے جائے۔ #
کمر باندھی بھی یاروں نے جو راہ حب قومی میں
وہ بولے تو نہیں چلتا وہ بولے تو نہیں چلتا
####
راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں وزارت عظمیٰ کی نامزدگی کے وقت گھر پر سو رہا تھا بیگم نے جگا کر بتایا،
گنگو تیلی بھی گھر پر خراٹے لے رہا تھا کہ اس کی بیوی نے جگا کر بتایا کہ اٹھو میرے غریب سرتاج مہاراجہ نے تجھے اپنا مصاحب خاص بنا کر تجھے جاگیر بھی الاٹ کر دی ہے، اور یہ خلعت فاخرہ بھی بھیجی ہے ساتھ گھوڑا بھی یہ پہن گھوڑے پر چڑھ مہاراجہ دربار لگائے بیٹھے ہیں، ان کو پرنام کر، راجہ پرویز اشرف پر وہ وقت بھی گزرا ہے جب وہ ایک جوتوں کی فیکٹری میں تین ہزار ماہوار پر ملازم تھے، پھر وہ سیاسی ورکر بن گئے اور لاٹھیاں کھاتے کھاتے وزارت عظمیٰ تناول فرما لی، یہ تو زرداری کا دسترخوان ہے، چاہے تو دسترخوان بنا دے چاہے تو خان خاناں بنا دے کیا نصیب ہیں کہ راجہ کی آ گئی بارات، اور وہ جو کسیلا پانی پیتے تھے، اب یہ مقام ملا ہے کہ #
اِدھر یہ ضد ہے کہ لیمنڈ بھی چھو نہیں سکتے
اُدھر یہ دُھن ہے کہ ساقی صراحیِ مے لا
تیمور لنگ بھی طالبان یعنی ایک دینی مدرسے کا طالب علم تھا، ایک اپنے سے بڑے لڑکے سے اس کی ٹھن گئی کیونکہ وہ اسے چھیڑتا تھا، آخر تنگ آ کر اس نے ایک ماہر شمشیر زن کی شاگردی اختیار کی اور فارغ وقت میں وہ سارے داؤ پیچ سیکھ گیا۔ رگوں میں چنگیزی خون دوڑ رہا تھا، کسی طرح تلوار لے کر کلاس میں پہنچا اور اس نابکار لڑکے کا سر قلم کر دیا، یہ بات بادشاہ وقت تک بھی پہنچ گئی، اس نے تیمور کو اپنی سپاہ میں بھرتی کر لیا، کہ یہ لڑکا تو بہت بہادر اور غیرت مند ہے، الغرض اس نے تیمور کو اتنی ترقی دی کہ وہ سی این سی بن گیا۔ اس عہدے پر آتے ہی اس نے بادشاہ کا سر اڑا دیا اور اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ اور اس طرح اس زمانے کا ایک دینی مدرسے کا طالب علم مغلیہ سلطنت کا بانی ٹھہر گیا اور حافظ کے اس شعر کا مصداق بن گیا #
گدائے میکدہ ام ولیک وقتِ مستی بیں
کہ ناز بر فلک و حکم بر ستارہ کنم
(یوں تو میں میکدے کا بھکاری ہوں لیکن مجھے مستی کی حالت میں دیکھو کہ آسمان پر ناز، اور ستاروں پر حکم چلاتا ہوں)
####
”سر کشترا۔ فتح سروں کی جیت سنگیت کی“ میں عاطف اسلم کی شاندار پرفارمنس، چوتھے فائنلسٹ کے لئے جنگ جاری، بھارت کو سبقت، ہمیش ریشمیا نے امیدواروں کے ساتھ پرفارم کیا۔
ایک عرصے سے دونوں ہمسایہ ملک پاکستان بھارت سروں کی جنگ تو نہیں موسیقی کے دل جیتنے کے مقابلہ میں شریک ہیں۔ موسیقی نفرتوں دوریوں کج فہمیوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسے ہرگز جنگ سے تعبیر نہ کیا جائے، یہ امن اور صلح و آشتی کی پیامبر ہوتی ہے۔ #
اک احساس ہے یہ، روح سے محسوس کرو
”موسیقی“ کو ”موسیقی“ ہی رہنے دو کوئی نام نہ دو
اگر تانی اور سین کے درمیان نہ مٹ سکنے والے فاصلے دیپک راگ اور ملہار راگ کے ذریعے مٹ سکتے ہیں، تانی اور سین یکجان دو قالب بن کر تان سین بن کر جلال الدین اکبر کے نورتن بن سکتے ہیں، تو یہ دونوں ملکوں میں دوریاں دور کیوں نہیں ہو سکتیں اور اگر کوئی پرخاش کسی باعث ہے تو مٹ کیوں نہیں سکتی۔ یہ تشدد جنگ اور دھمکیوں کی نوک جھونک تو دل کے تار توڑ دے گی، رومی نے کیا خوب کہا تھا #
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست
(خشک لکڑی ہے، خشک تار ہے، اور خشک چمڑا ہے، پھر یہ دوست کی آواز کہاں سے آتی ہے،) موسیقی ایک ایسی ”کلا“ہے کہ دلوں کو گداز کرتی ہوئی روح میں اتر جاتی ہے، اگر شمشیر و سناں کو بالائے دیوار گیر ٹانک دیا جائے اور اور طاؤس و رباب کو بھی کچھ موقع دیا جائے تو حقیقت اپنا روئے نگاریں بے نقاب کر سکتی ہے۔
تازہ ترین