• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید علمی و شعوری اور تہذیبی ارتقاء سے قبل دنیا کی تمام قدیمی تہذیبوں اور ان کے زیرِ اثر پنپنے والے مذاہب میں عورت کو مرد کے بالمقابل کمتر ہی نہیں بلکہ ناقص العقل بھی قرار دیا جاتا رہا۔ مقصد یہ تھا کہ عورت بذات خود کوئی مجسم مکمل یا آزاد ہستی نہیں ہے بلکہ ابدی طور پر مرد کی مرہون منت یا اس کا ضمیمہ ہے۔

تخلیقی یا پیدائشی طور پر مرد کے بالمقابل عورت کا وجود اگر کمزور تھا تو اسے مستور بنا کر اس کے شعور پر بھی پردے ڈالنے کی کوشش کی گئی تاکہ ذہنی یا شعوری طور پر بھی اسے مرد کے بالمقابل ناقص ثابت کیا جاسکے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک مرد اگر بدقسمتی سے کمزور پولیو زدہ یا اپاہج پیدا ہوجائے تو سوسائٹی اسے ابدی طور پر محتاج یا بھیک مانگنے والا بنا دے جبکہ اس قدیمی اپروچ کے بالمقابل تہذیب جدید نے یہ تصور دیا ہے کہ سوسائٹی نہ صرف یہ کہ اجتماعی طور پر اس کی ذمہ داری لے بلکہ اسے خود کفیل بنانے میں اس کی پوری معاونت کرے۔

بات ہو رہی تھی عورت ذات کی کمزور حیثیت کے حوالے سے جسے نادان ابدی طور پر کمزور رکھنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں، اس کمزور بیانیے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب قبائلی ادوار میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی تھی۔ قبائلی جارحیت کا چلن عام تھا جو جنگوں میں فتح یابی کے بغیر ناممکن تھا اور جنگیں بھی شمشیر و سناں سے لڑی جاتی تھیں ایسی خونی جنگوں میں مردانگی ظاہر ہے مرد ہی دکھا سکتے تھے، یہی وہ پوائنٹ ہے جہاں سے عورت ابدی طور پر کمتر ٹھہرا دی گئی۔ عصرِ حاضر کی شعوری ترقی کے زیر اثر ارتقاء پذیر تہذیب جدید نے اگرچہ ان منفی سوچوں کو پنکچر کر دیا ہے مگر ان کی کئی پاکٹس آج بھی قدامت پسندی پر مُصر سماجوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

پہلے خواتین کو گھرگرستی کے نام پر پنچائت یا سوسائٹی سے کاٹنے کی کوشش کی جاتی تھی آج ذہین و فطین خواتین زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکر کئی شعبہ ہائے حیات میں استدلال کے ہتھیاروں سے بڑے قوی الجثہ مردوں کو مات دے رہی ہیں۔ آج جہالت یا قدامت کے گڑھ بھی ایسی احمقانہ جرأت سے فارغ ہوتے جارہے ہیں کہ عورت ناقص العقل ہے، مساوات مردوزن کا نعرہ آج پوری آن بان اور شان کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس یونیورسل تہذیبی ارتقاء کے باوجود افسوسناک خبر یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں قدامت پرستی کی بعض پاکٹس عورت کے خلاف جارحیت پربضد ہیں۔ اس سے بھی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ وہ اپنی اس جہالت کی کڑیاں صوفیائے کرام کے مقدس ناموں سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ صوفی ، سادھو، بھکشو، سنت یا درویش تو ہوتے ہی وہ ہیں جو بلاتمیز رنگ، نسل، جنس، زبان یا مذہب و ملت صرف انسانوں کی بات کرتے ہیں۔ انسانیت سے محبت و عقیدت ہی ان کا سرمایہ حیات قرار پاتا ہے۔

عرض مدعا یہ ہے کہ آج اگر کہیں ایسے اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام کے مقدس ناموں پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک یا رویوں کا انکشاف ہوتا ہے تو مہذب سوسائٹی کا فرض ہے کہ اس حوالے سے اصلاحی انقلابی اقدامات اٹھائے، آج جو طوفان حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے مزارِ اقدس پر محض اس وجہ سے اٹھایا گیا ہے کہ قفل کشائی کی رسم ایک خاتون آفیسر یاکمشنر نے کیوں ادا کی ہے ہمیں اس نوع کی منفی اپروچ کا تجربہ حضرت بابا بلھے شاہ سرکار ؒ کے مزارِ اقدس پر قصور میں ہوچکا ہے۔ درویش بابا جی ؒ کی الفت میں بارہا چھٹی والے دن کی صبح آستانہ عالیہ پر حاضری دینا باعث سعادت وبرکت خیال کرتا ہے، ایک روز اپنی بیگم صاحبہ کو بھی ساتھ لے لیا جو ذہین و فطین پڑھی لکھی ڈاکٹر ہیں، مگر اس وقت حیرت ہوئی جب ایک کھلنڈرے اور گنوار سے مجاور ٹائپ لڑکے نے کہا بی بی آپ خود قبر پر پھول نہیں چڑھا سکتیں کیونکہ دربار کے اس حصے میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

ہم وطن عزیز کے تمام اہل دانش کی خدمت میں یہ سوال رکھنا چاہتے ہیں کہ خواتین کے حوالے سے صنفی یا جنسی امتیاز پر مبنی یہ منفی رویے کب اور کیسے ختم ہوسکتے ہیں؟ مسئلہ درباروں پر حاضری یا قفل کشائی کا نہیں ان حوالوں سے خواتین کی تحقیر پر مبنی سوچ کا ہے۔ خدا معاف کرے پاکپتن شریف میں خاتون کمشنر کی قفل کشائی پر وہ مخالفانہ دیدہ دلیری اور منفی پروپیگنڈہ تھا کہ میڈیا کے سامنے بولتے ہوئے مونہوں سے جھاگ نکل رہی تھی اور الفاظ جیسے زہر میں بھیگے ہوئے، مجاور گویا تھے ہم یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے کہ کوئی عورت قفل کشائی کرے آخر کیوں بھائی؟ آپ کیوں برداشت نہیں کرسکتے؟ مسئلہ کسی ایک عورت کا نہیں تھا پوری عورت ذات سے متعلق تھا، یعنی پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی کے متعلق اگر آپ اس نوع کے نظریات رکھتے ہیں تو منطقی طور پر انہیں ثابت بھی کریں۔ آخر حرم شریف سے مقدس تو کوئی جگہ نہیں ہے جب وہاں عورت مرد کا ایسا کوئی امتیازی رویہ نہیں ہے تو ہمارے یہاں میں امتیازی رویوں کی اجازت کیونکر دی گئی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ اس ایشو کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے اس پر پوری بحثیں کرتے ہوئے ہر پہلو سے اس کا جائزہ لے کر ایسی قانون سازی کی جائے جس سے سوسائٹی میں موجود تمام تر امتیازی رویوں کا خاتمہ کرانے میں معاونت مل سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین