• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت دنوں کے بعد لاہور نےمجھے پکارا تھا، عجب منظر تھا اور سارا دن عجب کیفیات میں گزرا، دوپہر کو لاہور کے ادیبوں سے سنگ میل کے دفتر میں ملاقات ہوئی، خوب مزے سے کریلے کھائے، شام کوریڈنگز میں زاہد ڈار سےملاقات ہوئی، اس کا بھی وہی حال تھا جو ہم سب کا ہے، نہ زیادہ چلا جاتا ہے اور نہ زیادہ کھایا، کتاب ہاتھ میں تھی، مگر پڑھنے کا وہ عالم گزر چکا تھا، البتہ سگریٹ پینی کم ہوگئی تھی، شام تو پھر دو آتشہ تھی، ایک طرف منیرہ آپا (علامہ اقبال کی دختر) اور دوسری طرف آئی، اے، رحمان کی سالگرہ تھی، جن لوگوں سے عمروں سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، ان کو دیکھا، میری طرح حلیہ بدلا ہوا تھا مگر چاق و چوبند تھے، یہ تھے سرور سکھیرا، جو شروع زمانے میں دھنک نکالتے تھے، پھر بی بی بے نظیر کے سیکرٹری ہوگئے، سیاست انقلاب لاتی ہے تو ہزاروں لوگ سمندر پار چلے جاتے ہیں اور پھر کچھ لوگوں کو زمین یاد آتی ہے، سرور سکھیرا بھی زمین کی محبت میں وطن میں ہیں، میری خوش بختی کہ بائیس برس سے بچھڑے ہوئے بےشمار دوستوں سے ملاقات اصغر ندیم سیدکی بیٹی کی رخصتی پر ہوگئی، کتنا مصروف دن اور کتنی دھوپ، پھر میرا شہر لاہور تھا۔

کوئی دو سال پہلے آغا خاں کا اندرون شہر کیا ہوا کام دیکھنے گئی تھی، اس وقت ابتدا تھی، دہلی گیٹ کے اندر کام کروانے کی، سخت دھوپ تھی۔ کوئی بیس برس پہلے، اس جگہ پر لڑکیوں کا اسکول چلتا تھا، پھر شہباز شریف نے اس جگہ پر لڑکیوں کا ووکیشنل اسکول کھول دیا، حلیہ ویسا ہی خراب رہا، پھر فرشتہ بن کر آغا خاں فنڈز آگئے کہ لاہور شہر کے دروازے اور تاریخی عمارت کو بحال کیا جائے، دلی دروازے کے باہر اتنی دکانیں تھیں کہ جو اکبری منڈی تک پھیلی ہوئی تھیں، آج بھی گرم مسالوں کی یہ مارکیٹ شاہی حمام کے بیک یارڈ سے اکبری گیٹ تک پھیلی ہوئی ہے ، دلی دروازے کی کشادگی اب ظاہر تھی، ساتھ ہی بائیں جانب شاہی حمام میں کام کرنے والے گائیڈ جو کہ واقعی تربیت یافتہ اور پڑھے لکھے تھے، میرے ساتھ ہولئے، شاہ جہاں کے زمانے کے اس حمام میں جوکم از کم چار منزلوں پر مشتمل تھا، اس میں گرم اور ٹھنڈے پانی کی نالیاں ایسے بنی تھیں کہ اوپر بنے ہوئے گنبدوں میں بھاپ جمع ہوتی جس میں شہزادے اور شہزادیاں، بھاپ سے اپنے بدن کی استراحت حاصل کرتے تھے۔ بہت سوں کو ممکن حد تک بحال کردیا گیا ہے، مگر ابھی بھی کام جاری ہے، گنبد در گنبد یہ حمام، اب تو بہت سے سیاحوں کا مرکز بن گیا ہے، بس اس میں ایک کام کی کمی ہے کہ اگر یہاں ہوا کے آنے جانے کے راستے بنادئیے جائیں تو دیکھنے والوں کو سانس گھٹنے اور حبس کا احساس نہ ہو، شاید کبھی اس کو ائیرکنڈیشنڈ کردیا جائے تو آنے والوں کی تعداد اور بڑھ جائے، اوپر کی منزل پہ ایک ریسٹورنٹ بھی کھول دیا گیا ہے جہاں ایک دن پہلے آرڈر دیں تو جھلملاتی روشنیوں میں کھانے کا لطف لیا جاسکتا ہے۔مسجدوزیر خان مجھے ہمیشہ نقاشی کے لحاظ سے سب سے خوبصورت لگتی تھی، ترکی اور ایران سے آئے ہوئے نقش گروں نے وہ کام کیا ہے کہ اب تک قابل دید ہے، ہر چند انگریزوں اور سکھوں نے بہت سی نقاشی اور مخطوطے خراب کئے، اب بہت حد تک بحال کئے جاچکےہیں، آج کل اس کا انتظام لاشاری صاحب کے پاس ہے اور گلیوں کو بھی دوبارہ آراستہ کر کے، گھروں کو بھی خستگی سے بچالیا گیا ہے۔واپس اسلام آباد، یہ احساس لیکر آئی کہ ہم سب مل کر اعتزاز احسن کی کامیابی کا جشن منائیں گے کہ اتنا پڑھا لکھا، دانشور، ہمارا صدر بن گیا، میری خوش فہمی تھی، حالانکہ جانتی تھی کہ جن اسمبلیوں میں میٹرک پاس لوگ، کافی تعداد میں ہوں، وہاں دانشوروں کا کیا کام۔ سنگ میل میں افضال نے بتایاکہ گزشتہ دس سالوں سے لائبریریوں کے لئے کتابیں خریدنے کا استحقاق کالج کی انتظامیہ سے لے لیا گیا ہے، لائبریریاں، ویران، کتاب خرید کر پڑھنے والے پہلے ہی کم ہیں، تبھی توآج کل گریجویٹ ہونے والے نوجوان ادب نا آشنا ہیں، شفقت محمود ، ہمارے زمانے تک تو پڑھے لکھے تھے، اب ان کے پاس تعلیم اور کلچر دونوں کے بھاری قلمدان ہیں، اپنے سو دن کے ایجنڈے میں شامل کریں کہ اسکولوں کے نصاب میں 400جگہوں پر جوتعصبات شامل ہیں، ان کو ختم کریں ۔میڈیا پر بجائے اس کے کہ ہمارا صوفی شعرا کا کلام زیادہ سنایا جائےکہ وہ طہارت اور روحانیت کی بات کرتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ نہانا اور دھونا ہی اگر پاکیزگی ہے تو پھر مچھلیاں تو سب سےزیادہ پاکیزہ ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ راتوں کو تو کتے جاگتے ہیں، خدا نے رات، انسان کے آرام کیلئے بنائی ہے، اب آگے بڑھیں اور یونیورسٹیوں کی بات کریں تووہاں بھی بچے سوال نہیں کرتے، چونکہ دنیا کا ادب پڑھتے نہیں، اس لئے کورس کی کتابیں رٹ کر پاس ہونے کاعمل رائج ہے، ان سودنوں میں مکالمہ بڑھائیں۔

تازہ ترین