• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک اس طرح چل رہا ہے جس طرح آندھی چلتی ہے۔ ایسے لگتا ہے نہ کوئی گھر بچے کا نہ مکان ، نہ کوئی نظام بچے گا نہ ایوان۔ ہر طرف ایک "ہاپڑی" سی پڑی ہے۔ سب بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ سمت کا تعین ابھی کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔ کبھی اسلاف کی میراث عمارتیں بک رہی ہیں۔ کہیں بھینسوں کی فروخت سے قومی خزانے کو بھرا جا رہا ہے۔ کبھی بھارت کو سرعام دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ کبھی فرانس کے صدر کی کال کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ کبھی امریکہ کے ساتھ اٹکھیلیاں کی جا رہی ہیں۔ کہیں حسب روایت پچھلی حکومت کے جورو ستم کا ماتم کیا جا رہا ہے۔ کبھی ڈیم کے لئے چندہ مانگا جا رہا ہے۔ کبھی اپنے دعوے سے بار بار مکرا جا رہا ہے۔ کبھی میڈیا کو سرعام سخت الفاظ سے نوازا جا رہا ہے۔ کبھی عجلت میں ریلوے کی ان لائنوں کا افتتاح کیا جا رہا ہے جن پر صرف خدشات سفر کر سکتے ہیں۔ کبھی ایوان میں اپنے پرانے ساتھیوں کو گالیوں سے سرفراز کیا جا رہا ہے۔ کبھی انہی گالیوں پر معافی طلب کی جا رہی ہے۔ ایک ہڑ بونگ سی مچی ہے۔ نہ کچھ سجھائی دے رہا ہے نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے۔

اب پرانے دعوے و عزم راکھ ہو رہے ہیں۔ مخالفین کو غدار ، ڈاکو اور کافر کہنے والے اب اس طرح کی باتوں کی مناہی کر رہے ہیں۔ ایوان کی بے حرمتی کرنے والے اب ایوان کے تقدس پر تقریریں فرما رہے ہیں۔ سول نافرمانی والےاب ریاست کے بنیادی قوانین سمجھا رہے ہیں۔ دھرنے دینے والے اب دھرنوں سے اجتناب کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اقربا پروری کرنے والے اب دوستوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر نواز رہے ہیں۔ ذہانت معیار بتانے والے اب وفاداری کو معیار بتا رہے ہیں۔ کفر کے فتوے لگوانے والے اب مذہب کارڈ کے استعمال کو بری بات گردان رہے ہیں۔ جوش خطابت میں مغلظات بکنے والے اب تہذیب کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ کرپشن کے نام پر حکومتیں گرانے والے اب اسی اسلوب کو اپنا رہے ہیں۔ شاید کسی کو علم ہو لیکن بیشتر پاکستانیوں کو سجھ نہیں آ رہا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔ کس کو منزل بنا رہے ہیں۔ کس کا حساب کس سے چکا رہے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کے لئےچالیس ، پینتالیس دن بہت کم ہوتے ہیں۔ ان ایام میں حکومتیں اہم تعیناتیاں کر رہی ہوتی ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی پیش بندیاں کر رہی ہوتی ہیں۔ خزانے کو بھرنے کی سبیل ہو رہی ہوتی ہے۔ اہم اداروں سے رابطے ہو رہے ہوتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے خطوط مرتب کئے جا رہے ہوتے ہیں۔معاشی منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی ہے۔ ایوان میں طاقت کے مظاہرے ہو رہے ہوتے ہیں۔ عوام کو خوش خبریاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔ سہولتوں کا اعلان کیا جا رہا ہوتا ہے۔ فلاح کا پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن ان گزشتہ ایام میں اب تک کچھ بھی ایسا نظر نہیں آیا۔ نہ معاشی منصوبہ بندی نظر آئی، نہ سماجی بہبود کا کوئی کارنامہ سامنے آیا۔ نہ اخلاقی طور پر کسی عظمت کا نشان ملا نہ سیاسی طور پر کوئی دانشمندی ظہور پذیر ہوئی۔ جن چند چیزوں کا ہمیں ان ایام میں ادراک ہو ا وہ یہ ہیں کہ چاہے امن کا جو مرضی بیان دیا جائے مگرشاید سیاسی انتقام اب فرض اولین سمجھ لیا گیا۔ ہر اثاثے کی فروخت کو مسئلے کا حل تجویز کیا جا رہا ہے۔ ہر نقش کہن کا انہدام فرض سمجھ لیا گیا۔ دوستوں کو نوازا جا رہا ہے۔ کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملایا جا رہاہے۔ کابینہ میں وہ چہرے شامل ہیں جو پہلے بھی ناکام تھے اب ان سے نئے پاکستان کی نوید کا انتظار کیا جا رہاہے۔ کھٹارا گاڑیوں کی فروخت سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جانے کی توقع لگائی جا رہی ہے۔ بوسیدہ اور ناکارہ ہیلی کاپٹروں کو او ایل ایکس پر ڈالا جا رہا ہے۔ نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ محبت کا کوئی پیغام کہیں سے نہیں آ رہا ہے۔ شدت اور طاقت کا مظاہرہ اس کمال سے کیا جا رہا کہ سیاسی نظام ہکا بکا رہ گیا ہے۔ جس طرح کی غیر ضروری پھرتیوں کا مظاہرہ کیا جا رہاہے اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکومت کو خود حکومت بنانے کا یقین نہیں تھا۔ حکومت کو خود حکومت میں آنے کا یقین نہیں تھا۔

جو صاحبان علم و دانش اس ہنگامی حکومت کی کارکردگیوں سے نالاں ہیں ان سے درخواست ہے کہ ایک دفعہ انیس سو اٹھاسی سے لے کر انیس سو ستانوے تک کے چار حکومتی ادوار کا مطالعہ کر لیں۔ پتہ یہ چلے گا کہ یہ منظر ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ یہ تماشے اس ملک میں پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ اس طرح کی حکومتیں پہلے بھی آچکی ہیں۔ یہ وہ سنگین ادوار تھے جب ہر آنے والی حکومت نے مخالفین پر مقدمات کی لائنیں لگوا دی تھیں۔ جب سیاسی انتقام ہی نعرہ تھا ۔ جب جلد بازی میں سب کچھ ہڑپ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب خزانے کو بھرنے کی بچگانہ کوششیں کی گئی تھیں۔ جب جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتا کیا گیا تھا۔ جب مخالفین کے گھر کی عورتوں تک پر بہتان لگائے گئے تھے۔ اس وقت سوشل میڈیا کے جہادیوں کی سہولت میسر نہیں تھی مگر اخبارات اور سرکاری ٹی وی کے ذریعے مخالفین کو زک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی۔ جب کرپشن کے کیسز کی فائلیں کھولی گئی تھیں۔ جب لانگ مارچ کا چلن تھا ۔ جب مذہب کارڈ کا بے دردی سے استعمال کیا گیا تھا۔جب ایک دوسرے پر غداری کے فتوے لگائے جاتے تھے۔ جب صوبائیت کو فروغ دیا گیا تھا۔ جب ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے لئے ہر ذریعہ استعمال کیا گیا تھا۔ جب ایوانوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب بات جماعت کی حدیں پار کرتی ذات کے دائرے میں داخل ہو گئی تھی۔ جب نفرت کے چلن کو فروغ دیا گیا تھا۔

لیکن ہوا کیا کہ ان حکومتوں میں سے کوئی اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔ کسی کو دو سال ملے کسی کو تین۔ جتنا عرصہ یہ حکومتیں چلتی رہیں ہر لمحہ ان کے دھڑام سے گر جانے کی افواہیں زور پکڑتی رہتیں۔ جمہوریت کو قیام نہیں تھا۔ دوام نہیں تھا۔اب پھر ویسی ہی حکومت ہے۔ اب پھر ویسی ہی کارکردگی ہے۔ اب اپنے ماضی جیسا مستقبل ہی ہمیں درپیش ہے۔ یہ وقت بہت احتیاط کا ہے۔ ذرا سی غلطی کا خمیازہ تاریخ میں بہت گہرا گھائو لگا سکتا ہے۔ اس وقت صرف سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے اور اس بصیرت کا تقاضا تمام جماعتوں سے ہے۔ مسلم لیگ ن ہو ، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف اس وقت سیاسی یکجہتی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اپنی اپنی سیاست پر سمجھوتہ کئے بغیر اس یک جہتی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسے بدترین مخالفین میثاق جمہوریت کر سکتے ہیں تو یہ معاہدہ اب تین فریقوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ ایوان کی حرمت کے لئے، سول سپرمیسی کے لئے، آئین پاکستان کے وقار کے لئے ، عوام کے ووٹ کی تقدیس کے لئے یہ تینوں فریق مل کر بیٹھ سکتے ہیں۔ مجھے گمان ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے حصے کا سبق سیکھ چکی ہیں۔ مسئلہ تحریک انصاف کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں یا تجربے سے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین