• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومنتخب وزیراعظم پاکستان نے اپنی پہلی تقریر میں ہی پڑوسی ملکوں خصوصاً بھارت کے ساتھ دوستی پر زور دیا اور پھر اس سلسلے کو آگے بڑھایااور سفارتی سطح پر ساتھ بیٹھ کر اس تلخی کو دوستی میں بدلنے کی عملی کوشش کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کو خط بھی لکھامگر بھارت کی طرف سے پہلے تو مثبت ردعمل دیا گیا اور پھر اچانک اس کی مخالفت شروع کردی گئی۔ جب بھی آپ انڈیا پاکستان کی دوستی کے موضوع پر دلائل دے رہے ہوں تو آپ کو بہت محتاط ہوکر گفتگو کرنا پڑتی ہے ۔

ایسا کیوں ہے اور اس کے عوامل کیا ہیں کیوں نفرت کے بیج کو اتنا بو دیا گیا ہے کہ اب محبت کا بیج پروان ہی نہیں چڑھ پاتا۔ چلیں کچھ دیر کے لئے نفرت کے موضوع پر بات کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے ہر بم دھماکے کے پیچھے انڈیا اور ہر ایسے واقعے کے پیچھے را ہےجس سے پاکستان کی ساخت اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اور معصوم جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ میں مانتا ہوں ہندوستان ہمارا سب سے بڑا دُشمن ہے لیکن کیا دُشمنیاں دوستی میں نہیں بدل سکتیں اگر دوست نہیں بن سکتے تو نہ بنو بس دُشمن بھی نہ بنو کیونکہ اس دُشمنی سے جان چھڑانے کے لئے ہی تو دونوں کو الگ الگ مُلک دے دیا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ بجائے اس کے کہ دُشمنی ختم ہوتی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور میں اس کا زیادہ بڑا ذمہ دار ہندوستان کو قرار دیتا ہوں دراصل ہندوستان آزادی کے بعد سے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہوگیا تھا اور ابھی تک ہے ہندوستان میں آنے والی ہر حکومت کو سب سے بڑا مسئلہ ہمیشہ یہ درپیش رہا ہے کہ کس طرح سے وہ ہندوستان کے اندر آزادی کی چلنے والی اُن تحریکوں سے نمٹے جو کہ آسام، ناگالیم ٹریپورا، خالصتان، کشمیر، ہماچل پردیش سمیت اکیس بڑی ریاستوں میں چل رہی ہیں ہندوستانی کرتا دھرتاؤں کو پتا ہے کہ ان قوتوں سے نبٹنا ایک انتہائی نا ممکن عمل ہے چاہے کتنی ہی طاقت کا استعمال کیوں نہ کیا جائے لہٰذا ہندوستان میں عوام کو متحد رکھنے کے لئےپاکستان دُشمنی کا نعرہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور پھر مجبوراً مذہبی قید میں جکڑےعوام ہندوستانی حکومتوں کے ساتھ یک زبان ہوجاتے ہیں ذرا ہندوستان میں آنے والی حکومتوں پر نظر ڈالیں بی جے پی نے ہمیشہ مسلمان اور پاکستان دُشمنی کا نعرہ لگاکر ووٹ لیا اور اقتدار تک آئی اور پھر بی جے پی کی حکومتوں نے ہمیشہ ہندوستان کے اندر بھی اور باہر بھی نفرتوں کو فروغ دیا جس میں نریندر مودی کی حکومت سب سے آگے نظر آتی ہے پاکستان میں کبھی بھی مذہبی منافرت کے بنیاد پر ووٹ نہیں دیا گیا کہ جس سے جماعتیں حکومت بناسکیں ہمیشہ پاکستانی عوام نے مرکز میں اُسے ہی کامیاب کرایا جس نے دوستی اور فیڈریشن کا نعرہ لگایا مگر ہندوستان نفرتوں کے فروغ میں ہمیشہ آگے رہا اور اپنےعوام کو پاکستان کے خلاف اُکساتا رہا۔ یہ ہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہندوستانی افواج آئے دن کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے اسے اپنے میڈیا میں صبح سے رات تک مسلسل بریکنگ نیوز بناکر رکھتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ بس اسی پر مبذول رہے۔ یا پھر آئےدن نہتے کشمیریوں پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستانی افواج صرف جوابی کارروائی کرتی ہیں کیونکہ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ دوستی کرنے میں پہل کی گئی۔

پاکستان کی تاریخ کے دو انتہائی طاقت ور جنرلز کی دوستی کے لئے کی گئی کوششیں آج بھی بچے بچے کو یاد ہیں ایک وہ جب مارچ 1987 میں جنرل ضیاءالحق کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے جے پور گئے اور اُن کا وہاں والہانہ استقبال ہوا، اور دوسری کوشش کھٹمنڈو میں جنوری 2002 کی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر جب پرویز مشرف نے اُس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اُنھوں نے کھڑے ہوکر اُس ہاتھ کو خوش آمدید کہتے ہوئے تھام لیا۔ دوستی بڑھانے کے لیے ماضی میں کیا جانے والا شاہد آفریدی کا ٹوئٹ، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا نریندر مودی کو خط، میرا یہ آرٹیکل یا اس موضوع کے حوالے سے ہر آواز، ہر تحریر جنرل ضیا اور جنرل مشرف جیسی کوششوں کی طرح کی ایک کوشش ہی ہے اور معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ سرحد کے دونوں طرف اس طرح کی کوششوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں طرف عوام کا ایک طبقہ ہے جو اس طرح کی ہر کوشش اور عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتاہے کہیں وہ سوشل میڈیا پر جھوٹے اکاؤنٹس کے ذریعے نفرتوں کا بازار گرم کردیتا ہے تو کہیں سڑکوں اور گلیوں میں کرائے کے لوگوں سے جلسے جلوس کراکر اور نفرت کا یہ بازار دونوں ملکوں میں ایک جیسے انداز سے ہی سجایا جاتا ہے وہاں بھی پاکستان کے لئے اچھی بات کرنے والا ہر شخص آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے اور یہاں بھی نفرت کے خلاف سوال اٹھانے والا ہر شخص انڈیا کا دوست۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دھماکوں کےپیچھے را ہی ہے مگر ہمیں اس طرف سوچنا ہے کہ را کو یہ سب کرنے سے روکا کیسے جائے کس طرح اپنے محلوں سڑکوں اور گلیوں کو محفوظ بنایا جائے کس طرح اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو عیاںکیا جائے۔ میں نہ فوجی ہوں نہ سیاسی لیڈر ایک عام سا شہری ہوں لہٰذا ایک عام شہری کے انداز میں ہی سوچ سکتا ہوں اور میری نامعقول سوچ مجھے اس دُشمنی کو دوستی میں بدلنے کا حل یہ ہی بتاتی ہے کہ دونوں مُلکوں کےعوام کو ایک دوسرے سے قریب لایا جائے۔تعلیمی ثقافتی اور سماجی میدانوں میں اور ایک دوسرے کو باور کرایا جائے کہ کھیلوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ڈراموں اور فلموں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں ساتھ دینے سے مذہب یا قومیت بدل نہیں جاتی۔ اگر دونوں ملکوں کےعوام کا دل دیکھنا ہے تو یورپ، امریکہ یا مڈل ایسٹ میں رہنے والے پاکستانی اور ہندوستانی لوگوں کے تعلقات کو دیکھئے! بسا اوقات یک جان دوقالب بن کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ خونی رشتوں کی طرح نبھاتے ہیں اور کبھی آپ اکثریت کے منہ سے ہندوستان پاکستان کی تفریق نہیں سُنیں گے۔ یقین کریں اگر ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے تو ایک دن ہندوستانی عوام خود ہر ایسے ادارے کے خلاف آواز اُٹھائیں گے جو پاکستان میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی میں ملوث ہے یا بھارت میں پاکستان دشمنی کا نعرہ لگاتا ہے۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھ سے بجتی ہے اور اگر واقعی تالی بجانی ہے، ایک دوسرے کے گلی کوچوں میں ماتم کی صدا کے بجائے شادمانی کے قصیدوں کی گونج سننی ہے تو پھر ایک دوسرے سے ماضی کے ہر قصے کو بُھلاکر دوستی کرنا ہوگی، پیار کرنا ہوگا اور بقول عمران خان رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بات تب ہی آگے بڑھے گی جب ہندوستان کی طرف سے بھی پیار محبت اور رواداری کا پیغام آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین