• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستانی معیشت کا بائی پاس ہو رہا ہے جس کے بعد معیشت نہ صرف ٹریک پرآجائے گی بلکہ دوڑنے لگے گی‘‘ وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر کی جانب سے مشکلات میں گھری ملکی معیشت کی بحالی کی یہ پیشین گوئی پوری پاکستانی قوم کے لیے امید کی کرن ہے ۔نئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کے بنیادی خدوخال کیا ہوں گے ، پاکستان کے عوام و خواص سب ہی اس بارے میں جاننے کے خواہاں ہیں ۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ روز ایوان صنعت و تجارت اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے اپنی معاشی حکمت عملی کے ضمن میں کچھ ابتدائی اشارے دیے ہیں۔ان کے مطابق ٹیکس نظام میں اصلاحات لانے اور ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے حکومت ٹیکس پالیسی اور ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو الگ الگ کر رہی ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات جاری ہونے کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ فی الحال بیل آؤٹ پیکج لینے کا کوئی منصوبہ نہیں البتہ اگر ہم نئے قرضے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گئے تو یہ مذاکرات بنیاد ہوں گے ۔پانی کے بحران کو ملک کا اہم ترین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسد عمر نے اس سے نمٹنے کے لیے ماسٹر پلان کی ضرورت کا اظہار کیا ۔ معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کے سامنے کون کون سے راستے ہیں، وزیر خزانہ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس حوالے سے صراحت کی کہ’’ میں نے یہ نہیں کہاکہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ہم سارے آپشن دیکھیں گے۔آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے یا نہیں ، دس اکتوبرتک فیصلہ ہوجائے گا۔ ہماری چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے بات چیت چل رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم اس وقت پاکستان میں بیٹھی ہوئی ہے جس سے بات ہو رہی ہے۔آٹھ دس روز میں میں وزیراعظم کو بتا سکوں گا کہ ہم معاشی بحالی کیلئے کیا کریں گے۔‘‘ایران پر پابندیوں کے نتیجے میں تیل کے نرخ بڑھنے کے خدشے سے متنبہ کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ایسا ہوا تو ہماری مشکلات مزید بڑھیں گی۔ پاکستانی معیشت آج جس مشکل سے دوچار ہے، آج سے دو سال پہلے صورت حال اس سے بہت مختلف تھی۔ یکم جولائی 2016ء کو اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 23 ارب آٹھ کروڑ ڈالر سے زیادہ تھے،اسی سال ستمبر کے وسط میں بین الاقوامی بزنس میگزین فوربس نے بتایا تھا کہ پاکستانی اسٹاک ایکسچینج نے تین برسوں میں چار سو فی صد ترقی کرکے چین اور بھارت کے بازار حصص کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ 2013ء کی بدترین زبوں حالی سے محض تین سال میں نجات پانے والی پاکستانی معیشت پچھلے دو برسوں میں اس تیزی سے انحطاط کا شکار کیوں ہوئی؟ ملک میں مسلسل سیاسی افراتفری اور اداروں کے درمیان کشیدگی بھی اگرچہ اس ابتری کے اسباب میں شامل ہے لیکن اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ کو ہر اس شہری تک بڑھا کر جس کی آمدنی ٹیکس کے قابل ہے، معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے تھا، سابقہ دور میں وہ نہیں کیا جاسکا چنانچہ وزیر خزانہ کے مطابق آج بھی ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف سات لاکھ ہے جبکہ حقیقتاً یہ تعداد کروڑوں میں ہونی چاہیے۔ وزیر خزانہ کے بقول ان کی حکومت ان تمام پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پرعزم جن پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے اوراس مقصد کے لیے کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ معاشی خود کفالت کے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے اور قرض وامداد کی بیساکھیوں سے نجات کے لیے ٹیکس سے فرار کے تصور کا خاتمہ لازمی ہے۔ معاشی استحکام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ’’ہرکہ آمد عمارت نو ساخت‘‘ کی روش جاری رکھے جانے کے بجائے مکمل غور وفکر اور وسیع تر قومی مشاورت سے متفقہ قومی معاشی حکمت عملی اور پائیدار پالیسیاں وضع کی جائیں ، اداروں کے درمیان کشیدگی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ کیا جائے اور سیاسی اختلافات میں تحمل اور شائستگی کو رواج دیا جائے تاکہ قومی اتحاد و یکجہتی فروغ پائے جس کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصوربھی محال ہے۔

تازہ ترین