• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاف کیجئے بات سابق اور موجودہ آقائوں کی زبان سے شروع کرنا پڑ رہی ہے۔ کوشش کرونگا اسکا اُردو میں مفہوم بھی بیان کروں۔ جملے ہیں یہ امریکہ کے جواں مرگ مقبول ترین صدر جان ایف کینیڈی کے۔ موضوع تھا Poetry and Power۔ ’’شاعری اور اقتدار‘‘۔ کہتے ہیں:

When power leads man towards arrogance, poetry reminds him of his limitations. When power narrows the area of man's concern, poetry reminds him of the richness and diversity of existence. When power corrupts, poetry cleanses.

’’ جب اقتدار انسان کو تکبر کی طرف لے جاتا ہے ۔ شاعری اسے اس کی حدود یاد دلاتی ہے۔ جب اقتدار انسان کی فکر مندی کے علاقے محدود کرتا ہے تو شاعری اسے اسکے وجود کے تنوع اور فراخی کی یاد دلاتی ہے۔ جب اقتدار اسے بد عنوان بناتا ہے ۔ شاعری تطہیر کی کوشش کرتی ہے۔،،میں بھی بزعم خود شاعر ہوں۔ لیکن شاعری کی ایسی آفاقی ماہیت پہلے نہیں سنی تھی۔آرٹس کونسل کراچی میں ایک تازہ کار شاعرہ کے مجموعے ’رخت‘ کی تقریب رُونمائی میں بھی میں نے کینیڈی کے یہ جملے سنائے۔ مغرب میں شاعری کو اب بھی ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ وہاں بڑی بڑی کارپوریشنوں میں Resident Poet کا تقرر کیا جاتا ہے جو ہفتے میں ایک بار بڑے بڑے عہدیداروں اور سیلز مینوں کے سامنے اپنی نظمیں پڑھتا ہے۔اس سے ان کے دماغ کی مختلف جہتیں کھلتی ہیں۔ ہمارے ہاں شاعروں کو صرف ان کی برسی پر یاد رکھا جاتا ہے۔ زندہ شاعروں کو اس وقت تک چینلوں پر اہمیت نہیں ملتی۔ جب تک وہ اس دُنیا سے گزر نہ جائیں۔ صائمہ اسحاق کا یہ شعر سنیے۔

بس جھکائے ہوئے سر چلتے چلے جاتے ہیں

ہم وہ ریوڑ ہیں کہ جس کی کوئی رائے ہی نہیں

مجھے تو اس میں اپنی قوم کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس ریوڑ کی باگ ڈور جن کے سپرد کی جاتی ہے وہی اس کے شکاری بن جاتے ہیں۔

آج کل ہم چند ہفتوں کی حکومت کی طرف سے بہتر سے بہترین کارکردگی کیلئے جتنے بے چین اور بے صبرے ہورہے ہیں ۔ اتنے دو تین سال گزرنے پر بھی پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی باریوں میں نہیں ہوئے تھے۔ مجھ سمیت تمام تجزیہ نگار۔ کالم نویس ایک بڑے مینار کے جھروکے میں کھڑے اپنے فیصلے صادر کررہے ہیں۔ پہلے چند اوورز میں ہم ایک طرف چاہتے ہیں،بائولرز ساری مخالف ٹیم کو آئوٹ کردیں اور بلّے بازوں سے چاہتے ہیں کہ وہ ہر گیند پر چھکا ماریں۔

ویسے یہ سوچ خود عمران صاحب کی ہی پیدا کردہ ہے۔ دھرنوں میں ہر روز کنٹینر سے جو صدائیں آتی تھیں ۔ پھر انتخابی مہم میں بھی جو حوصلہ آور وعدے کئے جاتے تھے۔ اس سے عمران حکومت کا جو معیار تصوّر میں قائم ہوا وہ بلند و بالا ٹاورز کا ہی تھا۔ آج کل ٹاورز میں انتہائی تیز رفتار لفٹیں لگ گئی ہیں۔ مگر اس حکومت کو سیڑھیوں سے ہی چڑھنا پڑ رہا ہے۔ اس میں بھی کئی کئی جگہ رکاوٹیں ہیں۔ہماری گزشتہ تحریر پر شاعرہ ناصرہ زبیری نے مصحفی کی یاد دلائی۔

مصحفی ہم تو یہ کہتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

عمران خان رفو گری میں مصروف ہیں۔ ان کیساتھ اسد عمر ہیں۔ شیخ رشید ہیں۔ فروغ نسیم اور شفقت محمود۔ ادھر فواد چوہدری بار بار ایسے ٹانکے لگاتے ہیں جو ادھیڑنے پڑ جاتے ہیں۔

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ عمران خان کو رفو کرنے دیں۔ تجزیہ کاری جناب ہارون رشید۔ حفیظ اللہ نیازی اور سلیم صافی کے سپرد کردیں وہ تینوں کپتان کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ہم ان کی رائے سے بہتر رائے نہیں دے سکتے۔

فی الحال :

آئو حسن یار کی باتیں کریں

زُلف کی رخسار کی باتیں کریں

آپ ٹی وی چینلوں سے کچھ عرصہ منہ موڑلیں۔ دیکھیں زندگی کتنی حسین لگے گی ۔ جہاں شانوں پر زلفیں بکھری ہوں گی۔ اربوں روپے خسارے کی بات سننے میں نہیں آئیگی ۔آپ کے وطن کو خوبرو۔ پُر کشش بنانے کیلئے کتنی محنت کررہے ہیں بیوٹی پارلرز والے۔ جگہ جگہ کھل رہے ہیں۔کہاںکہاں سے تربیت لے کر آرہے ہیں۔ مشاطگی ۔ گیسو آرائی ۔ آرائش خم و کاکل۔ آپ کو اندیشہ ہائے دور دراز سے محفوظ رکھنے کیلئے۔خوبی یہ ہے کہ یہ صرف امیر کبیر لوگوں کیلئے نہیںہیں۔ غریبوں ۔ متوسط طبقے ۔ متمول افراد سب کو حسین بناتے ہیں۔

خوبروئی اور دلربائی صرف صنف نازک کیلئے نہیں۔ مردوں کیلئے بھی بیوٹی پارلر موجود ہیں۔ مرد بھی نرم جلد۔ نزاکت طبع کیلئے ان پارلروں سے رجوع کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ مرد حضرات جن کو پبلک کے سامنے جانا ہوتا ہے۔ سیاستدان۔ وزراء۔ ان کو تو ’’پہلے بیوٹی پارلر پھر پبلک‘‘ کا اصول اختیار کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم۔ صدر ۔ وزیر اعلیٰ۔ گورنر کیلئے تو سرکاری طورپر گیسو تراش کا اہتمام ہوتا ہے۔ وزراء بے چارے اپنے خرچ پر ایسا کرواتے ہیں۔

سب سے زیادہ خوشی یہ ہے کہ اب ہم خوبصورت ماڈلوں کے سلسلے میں خود کفیل ہورہے ہیں۔ پہلے ہمیں بھارتی اداکارائیں کرینہ کپور۔ کترینہ کیف۔ ایشوریا رائے چوراہوں پر۔ چینلوں میں۔ مختلف مصنوعات بیچتی نظر آتی تھیں ۔ بہت دُکھ ہوتا تھا کہ ہم اپنی حسینائوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ اب مقام شکر ہے پرانے دَور کی ریما سے نئے دَور کی ریمائیں رشتہ جوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہماری مصنوعات کو ہماری حسینائیں فروغ دے رہی ہیں۔

پاکستانی فلم بھی آہستہ آہستہ خواب غفلت سے بیدار ہورہی ہے۔ ٹی وی چینل کوشش کرکے پاکستانی شائقین کو اچھے چہرے دکھارہے ہیں۔ کارٹون فلمیں بھی تیار ہورہی ہیں۔’ڈنکی دی کنگ‘۔ کا بے صبری سے انتظار ہورہا ہے۔ ماہرہ خان۔ مہوش حیات۔ مایا علی۔ سجل علی۔ عروہ حسین نے فلموں میں اداکاری کا ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔ اصل شوبز تو یہ ہے۔ ہم نے سیاست کو شو بز بنانے کی کوشش میں سیاست کا بھی چہرہ مسخ کردیا اور شوبز کا بھی۔چند لمحے ملیں تو کوشش کریں جاننے کی کہ عشوہ و غمزدہ ادا کیا ہے۔ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں جو لوگوں کو مجنوں بنادیتے ہیں۔ شاعری کی طرف مائل کرلیتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:

Nations are born in the minds of poets and they vanish in the hands of politicians

’’قومیں شاعروں کے ذہن میں جنم لیتی ہیں۔ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتی ہیں‘‘

اقبال نے ہی کہا تھا:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

اس پر بات ختم کرتے ہیں۔ کسی پاکستانی خوبرو کا نام رہ گیا ہو تو معذرت

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین