• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس نے بجا فرمایا ہے:’’حکومت اور عدلیہ نے احتساب کا نعرہ لگایا، نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا۔‘‘ بھلا نعروں سے مسئلے حل ہونے لگتے تو کبھی کی شانتی و شادمانی مل چکی ہوتی۔ کیسے کیسے مقدس دعوؤں، روحانی وظیفوں، نجات کے صحیفوں اور انقلابی نسخوں کا جو حشر ہم نے مملکتِ خداداد میں ہوتے دیکھا ہے، کبھی کہیں اِس سرعت اور ڈھٹائی سے شاذ ہی کسی نے دیکھا ہو۔ جسٹس میاں ثاقب نثار پیچ و تاب کھائیں نہ تو کیا کریں۔ احتساب! احتساب! کا کیا سماں باندھا گیا تھا کہ کرپٹ قیادت کو جان کے لالے پڑ گئے، ’’صادق و امین‘‘ نہ پائے جانیوالے اڈیالہ جیل سدھارے اور انتخابی میدان کارزار میں ’’کرپٹ لیڈروں‘‘ کو تختہ دار پہ چڑھانے والے ہمارے دلوں میں بسے صاف و شفاف کپتان احتساب کے ایجنڈے پہ ایک ’’تاریخی مینڈیٹ‘‘ کیساتھ کامران ہوئے۔ اب تک بقول چیف جسٹس ’’صرف تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کی خبر آتی ہے، نیب کوئی ایک کیس بتائے جو منطقی انجام تک پہنچایا ہو؟‘‘ نیب جو ایک بااختیار اور آزاد تفتیشی ایجنسی ہے اور جسے چیف جسٹس صاحب کے مطابق اُنہوں نے ’’بہت سپورٹ کیا‘‘، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ جناب چیف جسٹس کی قیادت میں سپریم کورٹ نے جانے کتنے جتن کئے لیکن کرپشن کا پرنالہ اپنی جگہ ہے۔ ہر جگہ ہے اور ہر ہر مقام پہ ہے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو اکیلا چنا تو بھاڑ جھونکنے سے رہا۔ ایسے میں ہم اپنے پیارے دوست فواد چوہدری کی کرپٹ اپوزیشن اور ڈاکوؤں کو اُلٹا لٹکانے کی بڑھکوں پہ اُن کے معافی مانگنے پہ کیا داد دے سکتے ہیں۔ نعروں کی طرح بڑھکیں بھی کسی مغز سے خالی ہوتی ہیں، اُن پہ مغز کھپائی سے کیا حاصل۔

’’تبدیلی کی حکومت‘‘ آئے بھی کئی ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن مجال ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ کا نام و نشان کہیں نظر آئے۔ بس وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کی بولی لگتے، پروٹوکول پہ کھسیانی وضاحتیں ہوتے اور ایک گورنر ہاؤس کے ایک روز کے لیے دروازے کھلنے کے سوا، اب تک احتساب کی حشر سامانیوں کے مناظر کے لیے جنتا کی ترسی ہوئی آنکھوں کو کیا ملا ہے۔ نیب کی بے نتیجہ پھرتیوں کی طرح، ہماری حکومت کی ’’ٹاسک فورسز‘‘ پہ ٹاسک فورسز بنانے کی طفل تسلیاں کسی بھی ٹھوس قدم کا متبادل کیسے بنیں۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو بدلنے والوں کا پہلا ترمیمی بجٹ آیا بھی تو کسی حقیقی معاشی تبدیلی کے مژدے کے بغیر۔ وہی پرانی لیپا پوتی، ترقیاتی بجٹ کی کٹوتی، غیرپیداواری شعبوں کی نمو، غریبوں پہ ٹیکس اور نادہندگان کو چھوٹیں اور طرح طرح کے خساروں کو پورا کرنے کے لیے عوام کی جیب تراشی۔ اور وزیرخزانہ ہیں کہ معیشت کے دل کے بائی پاس آپریشن میں آئی ایم ایف کے سرجنوں کے ساتھ مشوروں میں مصروف۔ وہ کام جو 100 روز میں ہونے تھے ان کا دُور دُور تک کوئی سراغ نہیں۔ اوپر سے خارجہ امور میں ابلاغ فصاحت کا کمال دیکھئے، امریکی وزیرِ خارجہ کے فون پہ وزیراعظم ہاؤس کے بیان کی تردید سے لے کر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ٹرمپ سے مصافحہ پہ کسی بھی بات چیت کی تردید تک، بغیر کسی پیشگی اطمینان بخش تیاری کے بھارت کو مذاکرات اور ملاقاتوں کی دعوت اور سی پیک پہ بار بار کے شکوک کرنے اور آرمی چیف کے بیجنگ جا کر خدشات دُور کرنے تک، کیا کیا ہے جو اب تک طفلانہ بیان بازیوں کی نذر نہیں ہوا۔ ایسے میں جب کرنے اور دکھانے کو کچھ نہیں تو ہمارے فواد چوہدری جو کبھی شیریں بیاں ہوا کرتے تھے (اور اس میں ہمارے سہیل وڑائچ کے علاوہ اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا) کو ہی شیخ رشید کی کمی پوری کرنا پڑ رہی ہے، اللہ کرے اور زورِ بیاں زیادہ۔ محاورہ ہے اور جانے کیوں یاد آ گیا: تھوتھا چنا، باجے گنا۔

یہ بات ماننے کی ہے کہ عمران خان کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے ایجنڈے پہ حکومت میں براجمان ہوئے ہیں۔ ہر روز کرپشن کی غضبناک کہانیاں اور کرپٹ لوگوں اور اُن کی جائیدادوں کے قصے اخبارات میں شہ سرخیاں بن رہے ہیں۔ اور کرپشن کے پیسے کی بازیابی کے انتظار میں بیٹھے عوام اُکتانے لگے ہیں۔ لے دے کے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ہی احتساب کے لیے تر نوالہ بنے ہوئے ہیں۔ آج نواز شریف ہیں، کل آصف علی زرداری اور پرسوں کوئی اور۔ لیکن کرپشن ہے کہ سسٹم میں کینسر کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ اس کا کوئی علاج بی بی عظمیٰ و عالیہ کے پاس ہے اور نہ شوکت خانم اسپتال میں۔ جو جدید نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچہ ہمیں ورثے میں ملا ہے، وہ نوآبادیاتی دور کے نوکر شاہانہ ڈھانچے سے بھی زیادہ مفت خور اور کرپشن کا دلدادہ ہے۔ اوپر سے دست نگری کی فراڈیہ سرمایہ داری ہے جو ہینگ لگاؤ نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا کے محاورے کی امین ہے۔ کرپشن اس نظام اور اس کے اداروں کی رگ و پے میں ہے۔ جب تک آپ سایوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے، موجود کرپشن کا نظام کی سطح پہ موثر سدِباب نہیں کریں گے، یہ مرض: مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق بڑھتا ہی جائے گا۔ حالانکہ سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہی لالچ، منافع خوری اور مراعات و کرایہ پہ ہے۔ دُنیا میں کرپشن کے عفریت کو ضابطے میں لانے پہ بہت کام ہوا ہے۔ جدید اطلاعاتی تکنیکوں نے اسے روکنے میں بہت مدد کی ہے۔ جدید حکومتی نظام میں یہ مسئلہ بنیادی طور پر گورننس کا ہے جو ہمارے ہاں بہت بگاڑ کا شکار ہے۔ بھلے ایک حکومت آئے دوسری جائے، اس سے فرق پڑنے والا نہیں۔

ہمیں احتساب کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ نظر آ رہا ہے۔ وہ ہے نیشنل اکاؤنٹ ایبلٹی بیورو۔ چیف جسٹس نے ٹھیک کہا ہے کہ نیب کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے اعلیٰ عدلیہ خود تفتیشی ادارہ کیسے بن سکتی ہے۔ ایسی کوششیں کی جائیں بھی تو اُن پر بہت انگلیاں اُٹھتی ہیں۔ اچھی حکومت کے لیے جن اصلاحات کی ضرورت ہے اُن کا دائرہ پولیس، سول سروس، عدلیہ اور دیگر تمام مقدس اداروں تک پھیلانا ہوگا۔ احتساب کا اخلاقی جواز تبھی مستحکم ہوگا، اگر یہ سب کا ہو اور بلا استثنیٰ ہو، کیونکہ ہمارے ہاں تو خیر سے محتسب بھی لائقِ احتساب ہیں۔ احتساب کی موجودہ لہر کا آغاز سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے ایک وزیراعظم اُس احتساب کا لقمہ بنے تھے۔ اور اب خیر سے جسٹس چوہدری کے داماد اور بیٹا بھی دامِ احتساب ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ابھی تک صرف سابق وزیراعظم نواز شریف ہی اس کا نشانہ ہیں اور فواد چوہدری کے مطابق ہفتہ دس روز میں آصف علی زرداری بھی اس کی زد میں ہوں گے۔ اس صورت میں پارلیمنٹ احتساب، قانون اور نیب میں کسی تبدیلی کی ضامن کیسے بن سکتی ہے جبکہ تحریکِ انصاف کی حکومت کو قانون سازی کے لیے ضروری اکثریت بھی حاصل نہیں۔ لیکن احتساب کے نظام کو راہِ راست پہ ڈالنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ اور یہ ہمارے دوست فواد چوہدری کے جوشِ گفتار کے باعث ممکن نہیں۔ چیف جسٹس نے صحیح کہا ہے کہ ’’کیا گند عدالت صاف کرے‘‘، جبکہ اُن کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی ہیں۔ بات پھر اک محاورے پہ جا کر ختم ہوتی ہے: اکیلا چنا بھاڑ جھونکے بھی تو کیا حاصل۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین