• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم میں سے ہر شخص کسی دوسرے کی نظر میں کہیں نہ کہیں ولن ہوتاہے۔‘‘ (نامعلوم)

اس دنیا میں جینا بہت مشکل ہے، آپ کچھ بھی کر لیں، بھلے کتنے ہی نیک ہو جائیں، آخر تو انسان ہی رہیں گے اور انسان بہر حال خطاکار ہے، آپ ایسی زندگی گزار ہی نہیں سکتے جس میں آپ ہر کسی کی ’’اچھی کتابوں‘‘ میں رہیں کیونکہ لوگ ان کتابوں کا کوئی نہ کوئی صفحہ نکال کر آپ کی برائی ڈھونڈ ہی لیں گے۔ آپ پھٹی ہوئی جینز پہنیں گے تو لوگ کہیں گے چھچھورا ہے، اپنے آپ میں رہیں گے تو لوگ مغرور کا لیبل لگا دیں گے، ہر کسی سے جھک کر ملیں گے تو لوگ سمجھیں گے ضرورت مند ہے، دلیل سے بات کریں گے تو کج بحث کا خطاب ملے گا، سچ بات کہیں گے تو منہ پھٹ کہلائیںگے اور کچھ بھی نہیں کہیں گے تو لوگ آپ کو گاؤدی سمجھیں گے۔ ہم دن رات لوگوں سے ملتے ہیں، ان سے دوستیاں کرتے ہیں، انکے ساتھ وقت بتاتے ہیں اور پھر انہی کی کہی ہوئی کسی بات کو دماغ میں بٹھا کر اپنی زندگی مفت میں اجیرن بنا ڈالتے ہیں۔ چار دن کی اِس زندگی میں پہلے عذاب کیا کم ہیں کہ آپ خود بھی اُن میں اضافہ فرماتے پھریں! مگر یہ سب کہنا آسان ہے اور ذہن سے ایسی منفی باتوں کو جھٹکنا بہت مشکل، جس دن آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص جو بہت مخلص بنا پھرتا ہے حقیقت میں وہ آپ کی غیر موجودگی میں زہرفشانی کرتا ہے تو اُس روز آ پ کا دل چاہتا ہے کہ کاش دو قتل معاف ہوتے تو ایک اُس کا کرتا اور دوسرا اپنا۔ لیکن قتل کرنا چونکہ ایک مشکل کام ہے اسلئے اسے کسی مناسب وقت کے لئے اٹھا رکھیں اور تب تک کے لئے چند مشورے پلے سے باندھ لیں۔

پہلا مشورہ۔ پچھلے دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ میرے ایک نہایت ذہین دوست کے ہم جماعت رہ چکے ہیں، میں نے اپنے دوست کی قابلیت کی تعریف کی تو وہ چند لمحے سننے کے بعد مسکرائے اور بولے ’’جی جی ہم لارنس کالج میں اکٹھے تھے، اُس وقت تو وہ ایک نمبر کا لفنگا تھا، بعد میں اِس کے باپ نے اسے باہر پڑھنے بھیج دیا تو آج یہ کچھ بن گیا ہے ورنہ اس کے کالج کے دنوں کی باتیں آپ کو بتاؤں تو آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔‘‘ ممکن ہے یہ بات ایسے ہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کا ماضی ہے جسے ہم تبدیل نہیں کر سکتے، ہم سب نوجوانی میں حماقیں کرتے ہیں، وقت کیساتھ ساتھ سیکھتے ہیں اور آہستہ آہستہ ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ آپ کی ہر بات کو لوگ سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر استعمال کی جا سکے۔ آپ سمیت دنیا کی کوئی طاقت یا ٹیکنالوجی ماضی کو تبدیل نہیں کرسکتی لہٰذا اس بارے میں سوچنا ہی فضول ہے البتہ اگر کسی فعل کی تلافی ہو سکتی ہو تو ضرور کیجئے اور اگر ماضی کے کسی عمل کی وجہ سے مستقبل میں کسی نقصان کا اندیشہ ہے تو اُسکے نتائج قبول کرنے کاحوصلہ پیدا کریں اور اگر ممکن ہو تو ان کی سنگینی کم کرنے کے لئے کوئی دانشمندانہ قدم اٹھائیں، بس اِس سے زیادہ کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ سو، جس طرح اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے کسی شئیر کو خریدنے کے بعد ’’سٹاپ لاس‘‘ لگا دیتے ہیں تاکہ ایک مخصوص قیمت سے نیچے آنے کی صورت میں وہ شئیر از خود بازار میں بِک جائے بالکل اسی طر ح آپ بھی اپنی زندگی میں ’’سٹاپ لاس‘‘ لگا دیں، ماضی آپ تبدیل نہیں کر سکتے، مستقبل کے لئے آپ نے ممکنہ پیش بندی کر لی، اس سے زیادہ آپ کچھ نہیں کرسکتے، یہاں اپنی سوچ کو سٹاپ لاس لگائیں، یہی اس کا حل ہے۔

دوسرا مشورہ۔ کاش میں زندگی میں مصور بن گیا ہوتا اگر میںنے ایف ایس سی کے بعد انجینئرنگ کی ہوتی تو آج زندگی قدرے آسان ہوتی …اگر میں نے برسوں پہلے کاروبار کا منصوبہ شروع کیا ہوتا تو آج کروڑ پتی ہوتا…زندگی سے کاش اور اگر مگر کے الفاظ نکال دیں، دنیا میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جس نے ماں کے پیٹ سے جنم لینے کے فوراً بعد آئیڈیل زندگی کا پلان بنایا ہو اور اُس پر عمل بھی کر لیا ہو، جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں، کوئی بھی اتنا سیانا نہیں ہوتا، ہر کسی کی زندگی میں پچھتاوے ہوتے ہیں، آپ یہاں اکیلے نہیں، ان پچھتاوں کو سوچ کر دل جلانے کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آپ اب اِس کا کچھ کر سکتے ہیں، آئندہ کے لئے سبق بس اتنا ہے کہ زندگی کے فیصلے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کریں، اپنی مرضی سے کیا گیا فیصلہ اگر غلط نکل آئے تو پچھتاوا ہوتا ہے پر دل نہیں جلتا مگر کسی دوسرے کے مشورے پر عمل کرکے کیا گیا فیصلہ غلط نکل آئے تو پچھتاوا بھی ہوتا ہے اور دل بھی جلتا ہے۔

تیسرا مشورہ۔ آپ چاہے کچھ بھی کرلیں مگر زندگی بھر ایسی صورتحال پیدا نہیں کرسکتے کہ لوگ آپ کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا چھوڑ دیں، یہ ممکن ہی نہیں، انسان کے ماڈل میں یہ سہولت ہی نہیں رکھی گئی، آپ کسی بھی محفل میں بیٹھے ہوں تو لوگ منہ پر آپ کی تعریف کریں گے مگر غیر موجودگی میں وہی لوگ آپ کی ذات میں ایسی ایسی برائیاں ڈھونڈ کر بیان کریں گے جو آپ میں موجود ہی نہیں ہوں گی۔ اس کا آپ کچھ نہیں کر سکتے، کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا، ان باتو ں پر دل جلانا چھوڑ دیں۔ کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا۔ اگر آپ اپنی پوری زندگی بھی اس کام میں صرف کردیں کہ میں لوگ آپ کی برائی نہ کریں تو شاید آ پ کسی حد تک کامیاب ہو جائیں مگر ایسی صورت میں اُس بے رنگ زندگی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو آپ گزاریں گے۔ سو، آپ نارمل رہیں، انسان نارمل ہی ہوتے ہیں، اسی لیے ایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہیں۔ غیبت کی بابت اس قدر سخت حکم موجود ہے مگر اس کے باوجود ہم کرتے ہیں کیونکہ اس میں لطف آتا ہے۔ آپ اگر انسان کی سرشت کو تبدیل کرنے میں اپنی قیمتی زندگی گنوانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے، مشورہ مگر یہ ہے کہ لوگوں کی باتوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں، اس مسئلے کا کوئی حل آج تک ایجاد نہیں ہو سکا۔

چوتھا مشورہ۔ ایسا وقت زندگی میں کبھی نہیں آ سکتا کہ آپ کے پاس سب کچھ بہترین ہو۔ آپ چاہے کچھ بھی کر لیں، کتنا ہی شاندار گھر تعمیر کر لیں، کیسا ہی قیمتی لباس پہن لیں، یا کیسی ہی عالیشان گاڑی خرید لیں، ہمیشہ آپ سے زیادہ بہتر زندگی گزارنے والے لوگ دنیا میں موجود رہیں گے، آپ کے جاننے والوں میں بھی ایسے لوگ ملتے رہیں گے جو آپ سے کم قابل اور ذہین تھے مگر اُن کا لائف سٹائل کسی وجہ سے آپ سے بہتر ہو گیا، اس بات پر کڑھنا چھوڑ دیں، اگر آپ اپنی زندگی میں دن رات ایک کرکے ایسے کسی شخص سے آگے نکل بھی گئے تو کل کو کہیں نہ کہیں سے کوئی اور شخص آپ کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے آجائے گا، لہٰذا اس دوڑ سے باہر نکلیں اور اُس زندگی کا لطف اٹھائیں جو میسر ہے۔

پانچواں مشورہ۔ آپ کی ہر بات صحیح نہیں ہو سکتی، یہ ممکن نہیں کہ لوگ آپ کی ہر بات سے اتفاق کریں، ہر شخص کے اپنے خیالات اور نظریات ہوتے ہیں، ہر کسی کی اپنی اقدار ہیں، وقت اور زمانے کے ساتھ اقدار بھی تبدیل ہوتی ہیں اور نظریات بھی، لہٰذا اس بات پر سٹپٹانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ آپ حق سچ بات کر رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی آپ سے اتفاق نہ کرے۔ ضروری نہیں کہ لوگ آپ کی طرح سوچیں ۔ لہٰذا ٹھنڈا پانی پئیں او ر خود بھی ٹھنڈے رہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین