• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73ویں اجلاس سے خطاب میں حسب عادت اپنی مخصوص صدارتی بیباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا کھو کھلا بیانیہ عالمی برادری کے سامنے رکھا ہے ۔ کہا کہ ’’میں گلوبلائزیشن (عالمگیریت) کے نظریے کو مسترد کرتا ہوں، امریکہ اب اپنے قومی مفاد میں فیصلے کرے گا اور اپنے دوستوں کی ہی مدد کرے گا‘‘ ۔ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اور الیکشن دونوں سے ہی واضح ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل، بھارت اور برطانیہ کو ہی امریکہ کے حقیقی اور فطری حلیف سمجھتے ہیں۔ سابقہ چار امریکی انتظامیہ نے بھی ان تینوں ملکوں کو یہ درجہ دیا تھا لیکن وہ یورپی یونین خصوصاً برطانیہ کو خارجی امور میں اولین ترجیح دیتے رہے جبکہ صدر ٹرمپ نے اپنے ان بڑے روایتی فطری حلیفوں اور ہمسائے کینیڈا تک سے اپنی ریزرویشن کو عام کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی اور اسرائیل اور بھارت کے ساتھ تو وہ بہت دور تک جانے کیلئے مکمل آمادہ معلوم دیتے ہیں، بشرطیکہ انہیں دوسری ٹرم ملی۔

خارجی امور اور تعلقات عامہ میں ’’قومی مفاد‘‘ کی ہی اصلی حقیقت کو پاکستان نے صدر ٹرمپ سے بھی بہت پہلے اختیار کیا جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان، فرنٹ لائن پارٹنر کے طور امریکی چھتری میں کردار ادا کر رہا تھا۔ تو پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر کابل میں دوست طالبان حکومت سےبھی یکدم نظریں چرالی تھیں۔ بھارت کی امریکہ کو اپنے ائیر بیسز استعمال کرنے کی پیشکش کے مقابل، فوری اور آسان تر شرائط پر پاکستانی اڈے امریکہ کے استعمال کیلئے اس کے حوالے کئے۔ غلط یا درست سفارتی اندازے درست تھے یا غلط حکومت پاکستان اپنی جانب سے سب کچھ فقط پاکستان کے مفاد کیلئے کر رہی تھی ۔ اس میں تو دوست دوست کی کوئی پروا نہیں کی جا رہی تھی۔ آج صدر ٹرمپ نے بھی امریکہ کیلئے ، سابق صدر مشرف کے بیانیے کی طرز پر عین یہی نعرہ بلند کیا ہے کہ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اپنی اپنی حیثیت ، پوزیشن اور کیپسٹی کے مقابل سب ہی اقوام کے اپنے ’’قومی مفادات‘‘ ان کے خارجی تعلقات کا مرکز و محور ہوتےہیں۔ یہ دھوکہ اور فریب عالمی سطح کی سفارتی منافقت ہی رہی کہ بڑی طاقتیں اور ان کے چھوٹے بڑے کمزور اور تگڑے حلیف بھی ہرقیمت پر اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کے تحفظ کیلئے عالمی و علاقائی امن و استحکام اور پر امن بقائے باہمی کا غلاف اوڑھے رہے۔ صدر ٹرمپ کے مقابل امریکی انتخابات 16ءمیں صدارتی امیدوار اور اوبامہ انتظامیہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں امریکی پالیسی سازوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری طرح پاکستان بھی اپنے قومی مفادات کے حوالے سے ریزرویشن رکھتا ہے، جو ہمارے پاکستان سے مطلوب نوعیت کے تعلقات میں رکاوٹ ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سیاسی نوعیت کے تعلقات، اقتصادی مفادات اور سیاسی اثرورسوخ کے حوالے سے عالمگیریت (گلوبلائزیشن) کی کوئی حقیقت نہیں تھی ، وگرنہ تو دنیا کو عالمی برادری کے طور تشکیل دینے کیلئے جغرافیائی سرحدوں کے احترام، عالمی امن اقوام کے حق خود ارادیت، آزادی و خود مختاری کے تحفظ کیلئے اقوام متحدہ کا چارٹر پر عملدرآمد سچی اور حقیقی عالمگیریت کی ضمانت بنتا لیکن طاقتور ممالک نے اپنے حریف یا حلیفوں کے حریفوں کے جائز ترین مفادات کے حصول اور تحفظ کیلئے جو پوزیشن لی وہ قومی مفادات کی آڑ میں اقوام متحدہ کے چارٹر سے کھلم کھلا متصادم ہے۔ سو ’’قومی مفادات‘‘ کی غلط یا درست حقیقت نے (یہ دونوں شکلوں میں موجود ہیں) اقوام متحدہ کے چارٹر کو فریزکر کے رکھ دیا ہے۔ یہ عالمی المیہ طاقتور ملکوں کے ’’قومی مفادات‘‘ کی آڑ میں کیسے ہوا، کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حشر ، اور اس حوالے سے بڑے بڑے طاقتور ممالک کا خارجی تعلقات کے حوالے سے رویہ، عالمی امن و استحکام اور عالمی معاشرے کی اصل حقیقت کو کھولنے کے لئے کافی ہے۔

گلوبلائزیشن کی اصل حقیقت جو واقعی عمل میں ڈھلتی نظر آ رہی تھی، اسے بھی مکمل شعوری کوششوں کے ساتھ متنازعہ بنا کر منفی شکل میں ڈھال دیا گیا۔ ایسے کہ کینیڈین سوشل سائنٹسٹ ، پروفیسر مارشل مکلو ہن 1911-80)) دنیاے ابلاغ کا وہ مایہ ناز میڈیا سکالر تھا ۔ جس کی دنیاکے سکڑتے ہوئے گلوبل ویلج بن جانے Visualization عمل میں ڈھلتے ہوئے واقعی گلوبلائزیشن (عالمگیریت) کی شکل اختیار کر گئی، جس نے عالمی سیاست اور اقتصادیات کو بلند درجے پر متاثر کیا۔ مکلوہن نے گلوبل ویلج کا جو تصور اپنی کتابوں سے دنیا کو 60کے عشرے کے اوائل میں دکھایا تو یہ کوئی ہوا میں نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد ’’کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی معجزاتی پیش رفت اور عالمی انسانی معاشرے پر اس کے حیرت انگیز اثرات کو بھی واضح کیا‘‘۔ اس نے میڈیا کے کردار کا مطالعہ و مشاہدہ غیر روایتی اندز میں کیا، اس نے میڈیا کے جاری و ساری محدود مقاصد اور سائیکلولوجیکل وائر فیئر بذریعہ میڈیا۔۔۔ جیسے میڈیا کے کردار کے برعکس اس (میڈیا) کے مثبت عالمی کردار کو کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی کے ساتھ جوڑ کر دنیا کی ہوتی وحدانیت (OneNess)کے آخری نتائج (گلوبل ویلج) کا اپنا نظریہ جب دنیا کے سامنے رکھا تو واضح کیا کہ الیکٹرانک کی تیز تر پیش رفت دنیا کے مختلف خطوں کی ثقافت عالمی سطح پر عام ہونے سے ایک عالمی ثقافت اور طرز زندگی کا عالمی ابلاغی دھارا وجود میں آئے گا۔ جس سے ایک عالمی گائوں وجود میں آئے گا۔ واضح رہے کہ ہر گائوں کی ثقافت باسیوں کا باہمی رابطہ، مفادات اور سماجی رویہ میں گہری یکسانیت ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے یہ کشمکش جاری ہے کہ دنیا عالمی گائوں بن جائے، جس میں قومی اور عالمی مفادات کا توازن پیدا کر کے عالمگیریت کا نیا سفر شروع ہوا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین