• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم لیگ کے نام سے شہرت یافتہ مسلم لیگ کے حوالے سے وژن یا نظریاتی۔ کی بات اگرچہ عجیب سی لگتی ہے، لیکن قیام پاکستان کے بعد شاید یہ وہ پہلا موقع ہے کہ اس جماعت پر اس بابت اب بحث کی گنجائش پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ تحریک آزادی کے دوران ہر جماعت نے اپنے نظریات و سوچ کے مطابق حصہ لیا، مگر نصب العین یہ رہا کہ فرنگی قابض سے ہندوستان کی سرزمین واگزار کرالی جائے۔ ظاہر ہے ، اس کے بعد وہ دیگر مراحل آتے، جوبعد ازیں طے ہوئے۔قیام پاکستان کے آثار ہویدا ہوتے ہی ایک ٹریجڈی یہ ہوئی کہ وہ لوگ مسلم لیگ پر قابض ہوگئے ، جن کے متعلق قائد اعظم کو بھی کہناپڑا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘اس فرمان کی وجوہ دیگر بھی ہیں، بنابریں یہ تمام کھوٹے سکے ہی تھے، جنہوں نےنو زائیدہ مملکت کی سیاسی ،آئینی ،وسماجی قسمت ایسی کھوٹی کردی ،کہ اب تک قابل سند نہیں ہوسکی ہے۔ بروقت آئین نہ بن سکا،اقتدار کے لالچ نے ایسی سازشوں کو فروغ دیا کہ سال ، چھ اور تین مہینے میں حکومتیں بدلتی رہیں، یہاں تک کہ جواہر لعل نہرو بھی ہماری سیاست و سیادت سے یہ کہتے ہوئے مزے لینے لگےکہ’’میں اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا، جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں‘‘وہ ہے اور آج کا دن ہے کہ اہل نظر مسلم لیگ کی جانب سے نظریات کی پیوندکاری کو اداکاری جانتے ہوئے اسے سچ نہیں مانتے۔تاریخ یہ ہے کہ1937ءکے انتخابات میں سندھ ، سرحد (پختونخوا) سے مسلم لیگ کا کوئی بھی مسلم امیدوار کامیاب نہ ہوسکا، پنجاب کے175نشستوں میں سے صرف 2پر مسلم لیگ کے امیدوار راجہ غضنفرعلی خان اور برکت علی کامیاب ہوئے، لیکن راجہ غضنفر علی حکومت سازی کی اہل یونینسٹ پارٹی میں چلے گئے۔ بنگال سے البتہ 250ممبران میں مسلم لیگ کے40، آسام کے 108میں9مدراس کے215میں11بمبئی کے 175 میں20اوریوپی کے228میںمسلم لیگ کے 27امیدوار بن گئے۔یوں واضح ہے کہ مسلم لیگ کو موجودہ پاکستان میں ووٹ نہیں ملا اورسابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور ہندوستان کے مسلم نمائندے ہی مسلم لیگ کی اصل قوت بنے۔یہاں اس بات کو ظاہر کرناہے کہ اُس وقت پنجاب کے وہ جاگیردار ،اور خان بہادر جویونینسٹ پارٹی کے پشتی بان اور مسلم لیگ کی شکست میں پیش پیش تھے ،وہی پاکستان کے ظہور کیساتھ ہی دیکھتے دیکھتے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسکے والی وارث بن گئے،جبکہ مسلم لیگ میں پہلے سے موجود شکست خوردہ خوانین اور خان بہادر ان کے دست راست بن گئے ۔اس سلسلے میں صرف ایک مثال شاید ہماری بات کی تشریح کیلئے کافی ٹھہرے۔مسلم لیگ کے نام نہاد مرد آہن،خان عبدالقیوم خان 1946ءکے انتخابات سے دو ہفتے پہلے مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ اس سے قبل اُنہوں نے ایک کتاب ’’گولڈ اینڈ گنز ان دی فرنٹیئر ریجن‘‘لکھی ۔1945ء میں ہند کتاب،بمبئی سے شائع ہونیوالی 77صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر خان صاحب اور حضرت باچاخان کی مدح سرائی اور مسلم لیگ کی مخالفت سے لبریز تھی۔ قیام پاکستان کے بعد صوبہ سرحد(پختونخوا) میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی مرد آہن صاحب نے خود اپنی ہی محولہ کتاب پر پابندی لگا دی اور یہ دنیا کی وہ پہلی کتاب ہے جس پر خود اس کے اپنے ہی مصنف نے پابندی لگائی ۔لیکن اس کے باوجود اگر وہ خان اعظم بنتے ہیں، تو اس سے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا کہ پاکستانی اقتدارو اقدار پرجب قبضہ کیا جارہا تھا تو جنگ آزادی کے اصل ہیروز کس قدر کمزور بنادئیے گئے تھے۔ عزیز اعجاز نے کیا خوب کہا ہے...

خاموش تھے سب گواہ میرے

وہ اپنا بیاں بدل رہا تھا

موضوع کی تفہیم کیلئے 1946کی تفصیلات میں جانا ضروری نہیں ، البتہ یہ حقیقت سامنے لانا اہم ہے کہ فروری میں ہونیوالے ان انتخابا ت میں بھی موجودہ پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش بننے والے بنگال یا ہندوستان کے اُن علاقوں میں مسلم لیگ کو کچھ کامیابی ملی ، جو، اب پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے اصل مسلم لیگی تھے۔ جبکہ مذکورہ انتخابات میں پاکستان کے موجودہ صوبوں میں جو مسلم لیگی شکست سے دوچار ہوئےیا بعد میں مسلم لیگ پر قابض ہوگئے، وہ جاگیردار، انگریز کی خدمات پرخان بہادراور سر جیسے خطاب پانے والےبالادست طبقات کے نمائندے تھے۔ بعدمیں اس طبقے نے آمریت پرستوں اور بیوروکریسی سے گٹھ جوڑ کرلیا اور بعض دین فروش بھی انکے اتحادی بن گئے۔1970ء کے انتخابات میں اس گٹھ جوڑ پر مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے پہلی مرتبہ کاری ضرب لگائی۔ عوامی لیگ سے کامیاب ہونیوالوں کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی،ان میں محنت کش، اُستاد، ڈاکٹر، وکیل اور دیگرخواندہ و کسب گر شعبوں کے افراد شامل تھے۔ ہماری طرف مغربی پاکستان میں کامیاب لوگوں کی اکثریت کا تعلق اس گٹھ جوڑ سے تھا، جس میں اب میڈیا بھی شامل ہوگیا تھا۔ اس گٹھ جوڑ نے مشرقی پاکستان کو گنوانا تو قبول کرلیا،لیکن اپنی اجارہ داری کے پیش نظر جمہوری فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس گٹھ جوڑ کا یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔عوام کے باشعور طبقات وشعبےہمیشہ ملک میںایسی قیادت کے خواہاں رہے ہیں جو ملک کو حقیقی جمہوری راستے پر گامزن کرتے ہوئے ملک وعوام کی ترقی کی کوئی سبیل کرسکے، تاہم ہر آنیوالے نے نعرے تو ایسے خوابوں کی تعبیر کے لگائے،لیکن اپنے عمل سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ہی کو دوام بخشا۔یوں ملک قرضوں اور عوام غربت کے دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ معروضی حالات میں میاں نوازشریف، اُنکی نڈر صاحبزادی اور وفادار ساتھیوں کے طرز عمل اور وژن کونہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر میں،یہاں تک کے لبرل حلقوں میں بھی پذیرائی مل رہی ہے۔یوں یہ تاثر پایاجاتاہے کہ نظام کہن کی داعی مسلم لیگ کا جنم ایک نظریاتی مسلم لیگ کی صورت میں ہوا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ایسا ہوسکے گا؟ یا کل پھر عوام کے لبوں پر راج کنول کا یہ شعر حسبِ ماضی رقص پذیر ہوجائیگا ...

غلط سمجھا زمانے میں، تجھے درد آشنا سمجھا

مری نظروں کا دھوکا تھا، میں پتھر کو خدا سمجھا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین