• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں جنوبی ایشیا میں بھارت کے مستقل امن دشمن رویے اور کشمیر و فلسطین سمیت وطن عزیز، مسلم دنیااور عالمی برادری کو درپیش مختلف اہم مسائل و معاملات پر نہ صرف پاکستان کے موقف کی بھرپور ترجمانی کی بلکہ مغربی دنیا میں آزادی اظہار کے نام پر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی متواتر مکروہ کوششوں کی پرزور مذمت اور اس شرارت کے مستقل سدباب کا مطالبہ کرکے کرہ ارض پر آبادڈھائی ارب مسلمانوں اور تمام معقول لوگوں کے جذبات سے بھی دنیا کو مؤثر طور پر آگاہ کیا۔ انصاف اور انسانی حقوق کی بالادستی کے جن اصولوں پر دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی سطح پر اتفاق کیا گیا تھا، موجودہ صدی میں ان کی بے محابا پامالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے بالکل درست طور پر کہا کہ سامراجیت کی نئی شکلیں پروان چڑھ رہی ہیں، تجارتی جنگ کے گہرے بادل افق پر نمودار ہوچکے ہیں، فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات اپنی جگہ موجود ہیں جبکہ دنیا میں نئے تفرقے بھی جنم لے رہے ہیں اور ان سے عالمی امن کے لیے نئے خطرات ابھررہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے بجاطور پر مسئلہ کشمیر کو پاک بھارت تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر یہ حقیقت واضح کی کہ سات دہائیوں سے جاری یہ تنازع صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہی سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کے ناقابل تردید ثبوت کے طور پر شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی اس حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیا جس سے بھارت کے ریاستی جبر کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کے جواب میں مودی سرکار نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ ملاقات کے حوالے سے جو منفی طرز عمل اختیار کیا، پاکستانی وزیر خارجہ نے عالمی قائدین کے اجلاس میں اس رویے کی غیرمعقولیت مدلل طور پر واضح کی۔ کشمیر میں جاری قتل و غارت پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے ذمہ داروں کے تعین کا مطالبہ کرکے انہوں نے حقائق کے چھان پھٹک کے لیے ایک ایسا طریق کار تجویز کردیا جس کی ضرورت و افادیت سے بھارت سمیت کسی کے لیے بھی انکار ممکن نہیں ۔ پاکستان پر دہشت گردی کے بے بنیادالزامات کے تناظر میں انہوں نے صراحت کی کہ ہم نے دو لاکھ افواج کی مدد سے دنیا کا سب سے بڑا آپریشن کیاہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی کردار کو سامنے لانے کے لیے وزیر خارجہ نے پاکستان میں زیر حراست بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافات نیزسمجھوتہ ایکسپریس ، اے پی ایس اور مستونگ کے سانحات یاد دلائے جن کے شواہداقوام متحدہ کودیے جا چکے ہیں۔بھارت کے جنگی جنون ، جارحانہ بیانات اور لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی خلاف ورزیوں کے ذریعے جنگ کی سی صورت حال پیدا کرنے کی بھارتی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے متنبہ کیا کہ بھارت نے کسی شرارت کی جرأت کی تو اسے بھرپور ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے رضاکارانہ واپسی کے معاملے کو بھی وزیر خارجہ نے بجاطور پر عالمی برادری کے سامنے اٹھایا جس میں تعاون عالمی ادارے نیز امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی لازمی ذمہ داری ہے۔اس خطاب کی ایک انفرادیت یہ بھی تھی کہ اس کے لیے دنیا کے دوسرے خود مختار اور باوقار ملکوں کے پراعتماد قائدین کی طرح پاکستان کی قومی زبان کا انتخاب کیا گیا جبکہ برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد پچھلے سات عشروں میں شاید ہی کبھی کسی پاکستانی لیڈر کی جانب سے عالمی ادارے میں انگریز اور اس کی زبان کی مرعوبیت اور ذہنی غلامی سے آزادی کا یہ مظاہرہ کیا گیا ہو۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں پاکستان کے موقف کی بلاشبہ درست اور جرأت مندانہ ترجمانی کی، تاہم اس کے نتیجے میں کسی معاملے میں کوئی عملی پیش رفت ہوتی ہے یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔

تازہ ترین