• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ’’ جوانی پھر نہیں آنی‘‘

صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کو اُس وقت تک کے لیے معطل کر دیا گیا ہے جب تک علوی صاحب اس عہدے پر براجمان رہیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ آئینِ پاکستان میں صدرِ مملکت کو ایسی کسی بھی عدالتی کارروائی سے استثنا حاصل ہے، اس لیے علوی صاحب کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ عدالت میں نہیں چل سکتا، اس لئے اسے معطل کیا جا رہا ہے۔ جب کچھ ایسا ہی معاملہ پیپلز پارٹی دور کے صدر آصف علی زرداری کو کرپشن کے مقدمات میں پیش تھا اور اُن کے آئینی استثنا کی بات کی جاتی تھی تو تحریک انصاف سمیت دوسری سیاسی جماعتیں، میڈیا اور سول سوسائٹی اس پر سخت اعتراض کرتے رہے۔ یہ بحث کی جاتی تھی کہ جب خلفائے راشدینؓ عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے تو کسی ایسے استثنا کی یہاں کیسے گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ استثنا سے متعلق آئینی شقیں اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انصاف کے تقاضوں کے بھی منافی ہیں۔ ڈاکٹر علوی کی جماعت جو اب حکمران پارٹی ہے، اس نقطۂ نظر (جسے میں بھی درست سمجھتا ہوں) میں پیش پیش تھی لیکن آج صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ نہ تو وہ یہ استثنا چاہتے تھے اور نہ ہی اُنہوں نے عدالت سے کوئی رعایت طلب کی لیکن عدالت اُس آئینی شق کی پابند ہے جو کہتی ہے کہ کوئی بھی فوجداری مقدمہ صدر یا گورنر کے خلاف اُن کے مدتِ عہدہ کے دوران نہ تو قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی چلایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ صدر صاحب نے بعد ازاں ایک ٹویٹ میں یہ بات بھی کہی کہ وہ اپنے وکیل کو کہیں گے کہ عدالت سے استثنا کے خاتمے کی بات کریں۔ اس صورتحال اور صدر علوی کے جواب پر ایک صحافی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک مولوی صاحب چوری کے خلاف لیکچر دینے کے بعد ایک دعوت پر پہنچے۔ میزبان مولوی صاحب کی تقریر سن چکا تھا۔ مولوی صاحب نے جب قورمہ کی جانب ہاتھ بڑھایا تو میزبان بولا: مرغی چوری کی ہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا: شوربہ حلال ہے۔ شوربہ ڈالتے ڈالتے بوٹیاں لڑھک کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گئیں، میزبان بوٹیاں پلیٹ سے نکالنے لگا تو مولوی صاحب کہنے لگے: پلیٹ میں خود سے آنے والی بوٹی حرام نہیں۔ گویا کل تک جو صدارتی استثنا دوسروں کے لیے حرام تھا، وہ آج تحریک انصاف کے صدر کے لیے حلال ہو چکا۔ امید تو یہ تھی کہ صدر صاحب اس معاملہ کو حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے اس مطالبہ کے ساتھ اُٹھاتے کہ ایک اسلامی ملک میں ایسے کسی استثنا کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور پھر ایسے صدرِ پاکستان کہ جنہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے حالیہ خطاب میں تحریک انصاف کے اس وعدہ کو دہرایا کہ اُن کی حکومت ریاستِ مدینہ کی عظیم مثال کو سامنے رکھ کر پاکستان میں تبدیلی لائے گی لیکن جب عمل کا وقت آیا تو علوی صاحب کو اُس آئینی شق کے تقدس کا خیال آ گیا جو کل تک بُری اور ناقابل برداشت تھی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرِ مملکت کا ایک اور ٹویٹ دیکھا تو حیرانی ہوئی کہ صدر صاحب کر کیا رہے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ میں نے فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ دیکھی، جسے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی سینما اچھی تفریح فراہم کر رہا ہے۔ صدر صاحب سے گزارش ہے کہ اپنے منصب کا خیال رکھیں، اُس تقریر کو بھی دوبارہ پڑھ لیں جو انہوں نے پارلیمنٹ میں کی تھی اور جس میں صدر صاحب نے خود ریاستِ مدینہ کو ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا۔ نیز اگر مناسب سمجھیں تو اپنا یہ ٹویٹ ڈیلیٹ (delete) کر دیں۔

گزشتہ ہفتے خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی کا ایک ٹی وی انٹرویو سنا۔ وزیراعظم عمران خان کی بیگم جو باپردہ دار خاتون ہیں، کو پردہ کا دفاع کرتے دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی۔ بشریٰ بی بی نے کہا کہ پردہ اُن کی پہچان ہے اور اس کا اسلام میں عورتوں کے لیے باقاعدہ حکم ہے، کسی کو اس پر اعتراض کرنے یا اس کا مذاق اُڑانے کا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ کسی نے اگر اُن پر تنقید کرنا ہے تو اُن کی بات پر کی جائے لیکن ایک ایسے عمل پر جو اللہ کا حکم ہے، پر کوئی مسلمان کیسے اعتراض کر سکتا ہے۔ بشریٰ بی بی نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بے پردگی اور مختصر لباس پہننے والی خواتین کو آج کل ماڈرن سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس باپردہ خواتین کو ’’پینڈو‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اسی انٹرویو کے دوران بشریٰ بی بی نے ایک ایسی بات کی جو قابلِ اعتراض تھی، اس لیے سوچا اس بارے میں بھی بات کر لی جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ بنی گالہ والے گھر میں وہ نماز پڑھ رہی تھیں کہ موٹو (عمران خان کا پالتو کتا) اندر آ گیا جس پر اُنہیں ڈر محسوس ہوا کہ موٹو کہیں اُن کی جائے نماز پر نہ آ جائے، اس پر انہوں نے غصے سے ہاتھ کا اشارہ کر کے اُسے پرے دھکیل دیا۔وہ چپ کر کے صوفہ کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا اور جب انہوں نے جا کے اُسے دیکھا تو اُنہیں کتے کی آنکھیں بھیگی ہوئی محسوس ہوئیں اور انہوں نے اُس کی آنکھوں سے پانی بہتے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر اُن کو بہت دکھ ہوا اور اُس دن کے بعد جہاں وہ جاتی ہیں، وہاں موٹو ساتھ ساتھ جاتا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں بشریٰ بی بی کی بات سن کر مجھے تعجب ہوا کہ کتے کو گھر کے اندر رکھنا گوروں کا تو رواج ہے جس کی ہمارے ہاں ایک ماڈرن طبقہ نقل بھی کرتا ہے لیکن ایک اسلامی سوچ رکھنے والی باپردہ خاتون کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام میں کتے کو شوقیہ طور پر گھر کے اندر رکھنے کی سخت ممانعت ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کتا ایک ناپاک جانور ہے جسے محض شکار یا (مویشیوں کی) رکھوالی کے لیے رکھنے کی گنجائش ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کے مفہوم کے مطابق جس گھر میں تصویر اور کتا ہو، وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ایک اور حدیث کے مفہوم کے مطابق اگر کسی شخص نے کتا پالا، جو کھیتی اور مویشی کی حفاظت کے علاوہ ہو تو روزانہ اس شخص کی نیکیوں سے ایک قیراط کمی کی جاتی ہے۔ (بخاری2322)

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین