• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو دن پہلے ایک ’مولانا ‘ سے سنا کہ آئن اسٹائن آخری دنوں میں مسلمان ہوگیا تھا ،سینہ چوڑا ہوا ، ’مولانا ‘ کے مطابق ان کے پاس وہ کیسٹ بھی جس میں آئن اسٹائن کا مسلمان ہونا صاف سنائی دے رہا،چند لمحوں کیلئے ذہن میں آیا کہ آئن اسٹائن کا مسلمان ہونا، کیسٹ کا مولانا کے پاس پہنچ جانا، کیسے ممکن ، لیکن پھر یہ’ شیطانی وسوسہ ‘ذہن سے جھٹک دیا ،سوچا، عین ممکن مولانا کے لکڑ دادا کی دعوت پر ہی آئن سٹائن کا دل مائل بہ اسلام ہوا ہو اور لکڑا دادا حضور نے ہی لگتے ہاتھوں یہ تاریخی روح پرور منظر بھی ریکارڈکر لیا ہو ،چند ہفتے پہلے ایک شعلہ بیاں مقرر سے سنا کہ اپنے آخری معرکے پر نکلنے سے پہلے نپولین نے چرچ جانے کی بجائے وضو کیا،دورکعت نفل پڑھے اور اپنی فتح کیلئے دعا کی ،دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا ، گو کہ یہاں بھی لمحہ بھر کیلئے ذہن میں آیاکہ نپولین کو وضو کرنا کس نے سکھایا ، نفل کیسے پڑھے جائیں ،کس نے بتایا اورجب نپولین اپنے محل کے تاریک کونے میں چھپ کر یہ سب کرر ہا تھا ، توکس نے دیکھ کر یہ خوشخبری شعلہ بیاں مقرر تک پہنچائی ،لیکن پھر یہ سوچ کر اس ’شیطانی وسوسے‘ سے بھی جان چھڑالی کہ جب بمقائمی ہوش وحواس نپولین مسلمان ہو چکا تو میں کس تحقیق میں پڑ گیا،پچھلی عید پر میرے گاؤں کا سوہنا موچی جو3 ناکام شادیوں اوردرجن بھر فلاپ کاروباروں کے بعد آدھے گاؤں کا مقروض ،عیدملنے کے بعد ایک طرف لے جاکر اس نے پہلے نواز شریف کی تازہ ڈیل ، عمران خان کے سو دنوں کے پلان پر میری معلومات میں اضافہ کیا ، پھر میرے کان کے قریب منہ لاکر چمکتی آنکھوں ، دمکتے چہرے کے ساتھ یہ بتا کر ایمان تازہ کر دیا کہ مائیکل جیکسن پیدا تو کافر ہوا مگر مرا مسلمان اور اس کا اسلامی نام تھا یوسف علی ، بے اختیار اسے گلے لگایا، گو کہ گلے ملتے سوچا ضرور کہ سوہنے موچی نے تو اپنی 65سالہ زندگی میں لاہور کا منہ بھی نہ دیکھا ،اسے امریکہ میں مقیم مائیکل جیکسن کے مسلمان ہونے کا کیسے پتا چل گیا ،پھر یہ ’شیطانی وسوسہ ‘ بھی یہ سوچ کر ذہن سے نکال باہر کیا کہ اگر عمر بھر عطا ء اللہ عیسیٰ خیلوی سننے والے چٹے ان پڑھ سوہنے موچی کے یہ علم میں کہ دنیا میں کوئی مائیکل جیکسن بھی تو اس کے مسلمان ہونے کی خبر بھلا اس سے کیسے چھپی رہ سکتی ہے ، یہ الگ بات کہ ایمان افروز خبر سنا کرسوہنا موچی مجھ سے پچھلا ادھار معاف کرواکر منہ مانگی عیدی بھی لے گیا ۔

عید سے یاد آیا ، ایک دوست بلکہ اپنا وہ شاعر دوست جس کی شکل ایسی کہ صاف لگے بڑا ہو کر سلطان راہی بنے گا، جس کی صحت ایسی کہ ایک بار پولیس کے ہتھے چڑھا تو بغور جائزہ لے کر تھانیدار بولا’’سمجھ نہیں آرہی تجھے پھینٹی لگاؤں یا جوس پلاؤں ‘‘ ،جو سست ،کاہل ایسا کہ جب تک شیو مکمل کرے ،تب تک شیو دوبارہ اُگ آئے ،جو صفائی پسندایسا کہ جس کے پیچھے پڑا ، ہاتھ دھو کر ہی پڑا، جو بچوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے ، کہے ’’مسلمانوں کے بچے ہیں ،آپس میں نہیں لڑیں گے تو کس سے لڑیں گے ‘‘جوایک بار صحافی کے یہ پوچھنے پر کہ ’’کیا آپ شاعر ہیں ‘‘ غصے میں آگیا ، ہم نے کہا اس میں غصے والی کونسی بات ،بولا’’صحافی نے یہ سوال میری شاعری سننے کے بعد پوچھا‘‘ اور جو اکثر کہے ’’کالج اچھی جگہ اگر پڑھائی نہ ہو،پڑھائی اچھی چیز اگر امتحان نہ ہو اور امتحان اچھا اگر نتیجہ نہ نکلے ‘‘، یہی دوست بتائے کہ عید کے دن خوشبو لگا کر عید گاہ جائیں مگر واپسی پر کپڑوں سے ہر قسم کی خوشبو آرہی ہو سوائے اس خوشبو کے جو لگا کر جائیں ،کہے ،عید کے دن امام مسجد سے ملنے کا بہترین طریقہ یہ کہ اپنی پیسوں والی مٹھی مولوی صاحب کی ہتھیلی پر یوں رکھیں کہ اس کے منہ سے بے اختیار نکلے جزاک اللہ اور یہی سنائے کہ پنجاب کے ایک گورنر جنہیں بھولنے کی عادت تھی ، معززین شہر سے عید ملتے ملتے جب درمیان میں پہنچتے تو بھول جاتے کہ کس طرف کے لوگوں سے عیدمل لی اور کس طرف کے لوگوں سے ابھی ملنا باقی ،دوچار لمحے اسی شش وپنج میں رہ کر وہ پھر نئے سرے سے عید ملنے لگ جاتے ۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، جو کچھ اوپر بتایا، جھوٹ نہ مبالغہ آرائی ، خود سنا، یہ تو اب ہمارا قومی مشغلہ ،گھر گھر کی کہانی ،خود مسلمان بننا نہیں آئن اسٹائن ،نپولین اور مائیکل جیکسن کو کافر رہنے دینا نہیں ، ایک عرصے تک یا ر لوگ باراک اوبامہ کو مسلمان سمجھ کر خوشیاں مناتے رہے ، اب تو ایسی بونگیوں پر دکھ نہیں الٹا خوشی ہو ، لہٰذا آئن اسٹائن ،نپولین وغیر ہ کے مسلمان ہونے کا سن کر بھی خوشی ہوئی بلکہ اتنی خوشی ہوئی جتنی یہ جان کر کہ قبضہ مافیا صدر عارف علوی کا بھی پلاٹ ہڑپ کرگیا، چلو کہیں تو مساوات نظرآئی، ’محمود وایاز‘ ایک صف میں کھڑے ملے ، ویسے علوی صاحب پر تو اب باقاعدہ ترس آنے لگا،لگے معصوم صدر کا واسطہ انسانوں سے نہیں بھوتوں سے ،کبھی بھوت مرضی کے خلاف پروٹوکول دے جائیں ، کبھی پروٹوکول پر احتجاج کرنے والوں پر بھوت کیس بنا جائیں اورعلوی صاحب بس معذرت بھرے ٹویٹس کرتے رہ جائیں، علوی صاحب کا بھی کیا قصور، یہ بھوت ہیں ہی ایسے ، جیسے ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا کہ تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے ،نفی میں جواب ملنے پر سوال پوچھنے والا غائب ہوگیا ، ایک طالبہ نے قدیم قلعہ دیکھنے کے بعد گائیڈ سے کہا’’میرا خیال ہے اس قلعے میں بھوت رہتے ہیں ‘‘ گائیڈ بولا’’ میں نے تو یہاں کبھی کوئی بھوت نہیں دیکھا‘‘ ، طالبہ نے پوچھا ’’تم یہاں کب سے ہو‘‘ گائیڈ بولا’’ یہی کوئی تین سو سال سے ‘‘۔

لیکن علوی صاحب کو چھوڑیں ، اب تو ایسا لگے پورے ملک پر بھوت،پریتوں کا سایہ ،انقلابی حکومت بھینسیں ،گاڑیاں بیچنے اورفیصلہ کرنے ،فیصلہ واپس لینے سے آگے نہیں بڑھ رہی ،اپوزیشن کی کرپشن کہانیاں ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں آرہیں ، بیوروکریسی بٹوہ چوری ، پاکٹ ماری میں لگ گئی ، شہد ،زیتون کی آٹو میٹک نہریں بہہ رہیں ، فالودے والے کے اکاؤنٹ سے اربوں نکل رہے اور عوام کا فالودہ بن چکا، ویسے فالودے والے کا اتنا حق تو ضرور کہ یا تو اسے فالودے کی ایک دکان کھول کر دیدی جائے یا کم ازکم بلاول کی خوبصورت تقریروں والی ایک کیسٹ ہی گفٹ کر دی جائے ، قصہ مختصر حال یہ ہوگیا کہ ایک طرف قوم ایسی کہ میاں صاحب ، آصف زرداری کو دلوں میں بسااور کندھوں پر بٹھا کر کپتان سے امیدیں لگائی بیٹھی کہ ’’معجزہ کیوں نہیں ہورہا، 70سالہ مسائل ،مصائب 40دنوں میں حل کیوں نہیں ہوسکے‘‘ ، دوسری طرف حکومتی کارکردگی ،پلاننگ ،دور اندیشی کا عالم یہ کہ گھر کی چھت پر چارپائیاں ڈالے میاں بیوی یاد آجائیں ، بیوی بڑے لاڈ بھرے انداز میں میاں سے کہہ رہی تھی ’’جب ہمارے ہاں لڑکا پیدا ہوگاتو اس کی چارپائی کہاں ہوگی‘‘خاوند بولا’’ تم ذرا اپنی چارپائی اُدھرسِرکا لو، میں ادھرسِرکا لیتاہوں،جگہ بن جائے گی ‘‘ ، دونوں اپنی اپنی چارپائی سِر کا اور جگہ بنا کر لیٹ چکے تو بیوی دوبارہ بولی ’’بیٹے کی شادی ہوگی ،بہو رانی آئے گی ،اس کی چارپائی کہاں ڈالیں گے ‘‘میاں نے کہا ’’تم اپنی چارپائی ذرا اور اُدھر سِرکا لو ،میں ذرا اور اِدھر سِرکا لیتاہوں ، جگہ بن جائے گی ‘‘دونوں نے جیسے ہی چارپائیاں ذرا اور سرکائیں توچھت ختم ہوئی اور یہ دھڑم سے زمین پر آگرے، تھوڑی دیر بعد جب حواس بحال ہوئے تو زمین پر پڑے ،درد سے کراہتے دونوں متفق تھے کہ ’’خدا ایسی دکھ دینے والی اولاد کسی کو نہ دے ‘‘۔

تازہ ترین