• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں مستقبل میں ملک میں پانی کے شدید بحران پر لکھا تھا کہ اگر پاکستان نے پانی کے ذخائر محفوظ کرنے کیلئے فوری ضروری اقدامات نہ کئے تو 2025ء تک پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہوجائے گا جو ملک کیلئے دہشت گردی سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس اہم قومی مسئلے پر نئے وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس ثاقب نثارنے بھاشا، دیامیر اور مہمند ڈیم فنڈز قائم کیا جس میں ملک اور بیرون ملک سے عطیات آرہے ہیں جس پر میں ان کا مشکور ہوں کہ وہ نئے ڈیمز بنانے کیلئے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔فیڈریشن نے بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ کراچی کے دورے میںمجھ سمیت دیگر بزنس مینوں نے ایس ایم منیر کی سربراہی میں ڈیمز کے فنڈ میں 11 کروڑ روپے عطیہ دیا۔ عمران خان کے مطابق ایوب دور میں پاکستان کی شاندار صنعتی ترقی، سستی ہائیڈرو بجلی کی مرہون منت تھی، طویل عرصے بعد پاکستان میں ایک فضا پیدا ہوئی ہے کہ ہم ملک کے مفاد میں یہ ڈیمز ہر حال میں بنائیں گے اور نئے ڈیمز بنانے کیلئے ہمیں 30ارب روپے سالانہ عطیات 6 سال تک درکار ہوں گے۔

مستقبل میں پانی کے بحران پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) نے پانی کے ذرائع پر ایک اعلیٰ سطحی ایڈوائزری کمیٹی قائم کی ہے جس میں ملک کے معروف پروفیشنلز، ریسرچ اسکالرز اور اکیڈمیوں کے سربراہان، پانی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور ممتاز صنعتکار شامل ہیں۔ مجھے بھی اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے جس کی سربراہی ملک کے ممتاز صنعتکار ایس ایم منیر کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کمیٹی کی کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں کانفرنس لائن پر دو میٹنگیں ہوچکی ہیں ۔ میٹنگ میں وزارت پانی کی اپریل 2018ء کی قومی واٹر پالیسی کا جائزہ بھی لیا گیا اور ToRs کیلئے ایک ضلعی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ لاہور سے افتخار علی ملک، رحمت اللہ جاوید، اسلام آباد سے کریم عزیز ملک، کراچی سے میرے ساتھ ایس ایم منیر، غضنفر بلور، زبیر طفیل، مظہر ناصر، طارق حلیم، وحید احمد، حنیف گوہر، پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان، محمد سلمان، مظہر تالپور، سمیع خان، این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد عمران، ڈاکٹر نزہت خان، سابق سیکریٹری ادریس راجپوت، ایوب قطب اور وقار الدین صدیقی نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں ماہرین نے اس اہم موضوع پر اپنی تجاویز پیش کیں جو آج میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔پاکستان میں جنوب مشرق میں 125 ملی میٹر اور شمال مغرب میں 750 ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں، اس طرح ہمیں سالانہ 32 ارب کیوبک میٹر (BCM)پانی بارش سے حاصل ہوتا ہے جبکہ ملک میں 9 لاکھ ٹیوب ویلوں سے 59 BCM پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں تربیلا ڈیم سے 10.38، منگلا ڈیم سے 5.9، 48 نہروں اور 19 بیراجوں سے مجموعی171 BCM پانی حاصل ہوتا ہے۔ دنیا میں اوسطاً 5920 کیوبک میٹر پانی فی کس دستیاب ہے جبکہ ہمیں 1950ء میں 5300 کیوبک میٹر فی کس پانی دستیاب تھا جو گزشتہ 65 سالوں میں 81 فیصد کمی کے بعد 2015ء میں صرف 1014 کیوبک میٹر فی کس رہ گیا ہے۔ دنیا میں کم از کم پانی کا اوسط 1000 کیوبک میٹر فی کس ہے یعنی دوسرے لفظوں میں پاکستان میں اس وقت لوگوں کو اوسطاً کم ترین پانی دستیاب ہے۔ پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ آبادی میں اضافے سے 2020ء میں یہ کم ہوکر 915 کیوبک میٹر اور 2025ء میں 850 کیوبک میٹر فی کس ہوجائے گا لہٰذاملک کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ پانی کے نئے ذخائر تعمیر کئے جائیں۔پاکستان میں 2000ء میں زرعی شعبے میں پانی کی کھپت 69 فیصد، صنعتی شعبے میں 23 فیصد اور گھریلو صارفین میں 8فیصد تھی لیکن 2016ء تک زرعی شعبے میں پانی کی کھپت 88.9فیصد (111 ملین ایکڑ فٹ)، صنعتی شعبے میں 3.4 فیصد (4.28 ملین ایکڑ فٹ)، گھریلو صارفین 6.5 فیصد (8.1ملین ایکڑ فٹ) اور ماحولیات کے شعبے میں 1.54فیصد (1.2ملین ایکڑ فٹ)یعنی مجموعی 124.92 ملین ایکڑ فٹ ہوگئی۔ اگر ہم خطے میں مختلف ممالک میں ڈیمز کا جائزہ لیں تو چین میں 87000ڈیمز ہیں جن میں 5000بڑے ڈیمز ہیں، بھارت میں 3200ڈیمز جبکہ پاکستان میں صرف 150ڈیمز ہیں جن میں 10ڈیمز بڑے ہیں۔ پاکستان کے پاس صرف 11.55 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ بھارت 120دن اور امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس طرح پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000 کیوبک میٹر ہے۔

6 ستمبر 2018ء کو سینیٹ کی خصوصی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بریفنگ میں IRSA نے بتایا کہ 2018-19ء میں پاکستان کو ربیع کی فصل کیلئے 35 سے 45 فیصد پانی کی کمی ہے۔ تربیلا ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی 1150 فٹ کی اونچی ترین سطح حاصل کرچکا ہے اور اس طرح ہمارے پانی کے مجموعی ذخائر 9.3 ملین ایکڑ فٹ تک پہنچ گئے ہیں جو گنجائش سے 32 فیصد کم ہیں جبکہ گزشتہ سال ہمارے پانی کے ذخائر گنجائش سے 24 فیصد کم تھے جس کی وجہ سے اس سال کاٹن کی فصل 14 ملین بیلز کے ہدف سے کم رہنے کی توقع ہے۔پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے آج پاکستان پانی سے صاف اور سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے فرنس آئل، قدرتی گیس اور ایل این جی سے مہنگی بجلی پیدا کررہا ہے جس سے ملک کا انرجی مکس خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے جو ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ اور ملکی ایکسپورٹس کو غیر مقابلاتی بنارہا ہے۔ملک میں پانی کے نئے ذخائر بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ قومی واٹر پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ نہروں کا 50فیصد پانی کھیتوں تک پہنچنے میں ضائع ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ نہروں کا پختہ نہ ہونا ہے۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیرز کے پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی کو بھی محفوظ کرنا ہوگا۔ زرعی شعبے میں ڈرپ ایری گیشن ٹیکنالوجی سے پانی کی بچت کی جاسکتی ہے جبکہ صنعتی و بلدیاتی شعبے سے حاصل ہونے والے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ساحلی علاقوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (PPP) کے تحت ڈی سیلی نیشن پلانٹ لگانے چاہئیں تاکہ کراچی اور دیگر ساحلی شہروں میں خلیجی ممالک کی طرح ڈی سیلی نیشن پلانٹ سے پینے کا پانی حاصل ہوسکے۔

پاکستان میں اس وقت پانچ بڑے ڈیمز ہیں جس میں تربیلا، منگلا، میرانی، وارسک اور سبک زئی ڈیم شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ڈیمز 1960ء سے 1975ء کے دوران بنائے گئے لیکن اسکے بعد پانی کے ذخائر کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں کی گئی ۔ 2025ء زیادہ دور نہیں لہٰذاقومی سلامتی اور بقا کیلئے حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر ملک میں نئے ڈیمز تعمیر کرنے کی پالیسی ترجیحی بنیادوں پر تشکیل دینا چاہئے تاکہ ہر سال بارش کے 70 سے 80فیصد پانی کو بحیرہ عرب میں ضائع ہونے سے روکا جاسکے۔ فیڈریشن کی کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اپریل 2018ء کی قومی واٹر پالیسی کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائےورنہ پاکستان مستقبل قریب میں پانی کے شدید ترین بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین