• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک نئے بلدیاتی نظام کی فوری ضرورت ہے ۔ اس ضرورت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) جیسے اعلیٰ آئینی فورم میںیہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ پورے ملک میں ’’قومی صفائی مہم ‘‘ چلائی جائے گی۔ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خا ن نے اپنی حکومت کے قیام کے تھوڑے عرصے میں ہی سی سی آئی کا اجلاس طلب کیا جس میں بہت اہم فیصلے ہوئے اوریہ حیران کن فیصلہ بھی ہوا کہ پورے ملک میں گندگی اور کچرے سے نجات حاصل کرنے کے لئے ’’ قومی صفائی مہم ‘‘ چلائی جائے گی سی سی آئی ایسا فورم نہیں ہے ، جس میں اس طرح کے فیصلے ہوں۔ یہ کام ایسے اداروں کا نہیں ہے ۔ یہ کام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا بھی نہیں ہے ، جنہوں نے سی سی آئی کے اجلاس میں اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے ۔ کیا بلدیاتی اداروں نے کام نہیں کیا یابلدیاتی اداروں کو کام نہیں کرنے دیا گیا ؟ یہ ایک سوال ہے ، جس پر کھل کر بات ہونی چاہئے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے شہروں میںصفائی کا کوئی نظام وضع نہیں ہو سکا ہے ۔ گندگی اور کچرے کے ڈھیر دنیا میں پاکستانی شہروں کی پہچان بن گئے ہیں ۔

قومی صفائی مہم شروع کرنے کا فیصلہ اچھا ہے لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے ۔ پہلے بھی کراچی سمیت مختلف شہروں میں سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے متعدد بار صفائی مہم شروع کی گئی ۔ ہفتہ صفائی بھی منائے گئے لیکن جیسے ہی مہم ختم ہوتی ہے ، پہلے سے زیادہ گندگی ہو جاتی ہے اور پہلے سے زیادہ کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔ گندگی اور کچرا لوگوں کا بنیادی مسئلہ بن جاتے ہیں اور وہ دیگر مسائل بھول جاتے ہیں ۔ پھر سیاسی جماعتوں کو ’’ کچرے پر سیاست ‘‘ چمکانے کا موقع ملتا ہے اور اب تو حد یہ ہے کہ سی سی آئی جیسے آئینی فورم میں یہ معاملہ پہنچ گیا ہے۔ قومی صفائی مہم ختم ہو گی تو پھر کیا ہو گا ؟ اس پر بھی غور کرنا چاہئے ۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں موثر بلدیاتی نظام نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں کچرا جمع ہوتا ہے اور اس پر سیاست ہوتی ہے ۔ سی سی آئی جیسے آئینی فورم کو ملک بھر میں ایک موثر اور یکساں بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا یہ وژن ٹھیک ہے کہ ملک کو ایک نئے بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے ۔ اس وژن پر عمل درآمد میں ایک مشکل تو یہ ہے کہ بلدیاتی امور 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں ۔ ہر صوبے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام رائج کرے ۔ اس طرح ہر صوبے میں الگ الگ بلدیاتی نظام ہیں ۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ اس وقت صوبوںمیںجو بھی بلدیاتی نظام ہیں ، وہ موثر نہیں ہیں ۔ بلدیاتی ادارے اختیارات اور مالیاتی وسائل کی کمی کے باعث کام نہیں کر سکتے ۔ ان مشکلات پر قابو پانا از حد ضروری ہے ۔ اٹھارویں ترمیم لوگوں کے لئے ہے لوگ اسکے لئے نہیں۔ اگر وہ ترمیم حائل ہو رہی ہو تو اس پر غور کرناچا ہئے تاکہ عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔ بلدیاتی ادارے ، جنہیں مقامی حکومتوں سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ موثر اور مضبوط نہ ہونے کے تاریخی اسباب ہیں ۔ یہ ادارے جمہوریت کی بنیاد اور سیاست کی نرسری ہوتے ہیں لیکن جمہوری اور سیاسی قوتوں نے ان اداروں کو ’’ اون ‘‘ ( OWN ) نہیں کیا کیونکہ بلدیاتی اداروں کو آمروں نے اپنی ’’ سیاسی طاقت ‘‘ بنانے کی کوشش کی ۔ اس کشمکش میں بلدیاتی ادارے یا مقامی حکومتیںمضبوط نہ ہو سکیں ۔ ایوب خان نے ’’ بنیادی جمہوریتوں ‘‘ کا نظام نافذ کیا اور ان کے ذریعہ نئی متبادل سیاسی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ بعد ازاں ضیا الحق نے 1979 ء کا بنیادی قانون نافذ کیا اور غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کراکے متبادل سیاسی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ ان کا مقصد بھی وہی تھا کہ مقبول اور بڑی سیاسی جماعتوں اور موثر سیاسی قیادت کو ختم کیا جائے ۔ان کے بعد پرویز مشرف نے ضلعی اور شہری حکومتوں کا نظام نافذ کیا ، جس کے تحت تقریبا ڈیڑھ سو سال پرانا انتظامی ڈھانچہ تبدیل اور تہس نہس کر دیا گیا اور صوبوں کو آئینی طور پر غیر موثر بنا دیا گیا حالانکہ صوبے پاکستان کی وفاقی اکائیاں ہیں ۔ ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ ابھرنے والی سیاسی قوتوں کو غیر موثر بنا دیا جائے۔ اس طرح سیاسی قوتیں بلدیاتی اداروں یامقامی حکومتوں کے پنپنے سے خوف زدہ رہیں ۔ بلدیاتی انتخابات سیاسی حکومتوںکی بجائے زیادہ تر آمرانہ حکومتوں کے دور میں ہوئے اور یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ہے ۔ آمرانہ حکومتوں کے ادوار میں بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کے جو بھی نظام نافذ کئے گئے ، ان کا بنیادی نعرہ یہ تھا کہ عوام کو نچلی سطح پر زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں ۔ یہ نعرہ سیاسی قوتوں کو لگانا چاہئے تھا لیکن آمرانہ حکومتوںکو اس نعرے کے پس پردہ مقاصد کی وجہ سے نچلی سطح پر بااختیار اور موثر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کے کام میں سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل نہ ہوئی۔ اب اس کشمکش کو ختم ہونا چاہئے ۔ پاکستان کے شہر ، قصبے اور دیہات تباہ ہو چکے ہیں ۔ وہ صحت و صفائی اور بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی کے خودکار نظام سے محروم ہیں ۔ مکمل طور پر بااختیار اور موثر مقامی حکومتوں کے نئے نظام کی ازحد اور فوری ضرورت ہے ۔ یہ مقامی حکومتیں مالی اور انتظامی طور پر بااختیار ہوں ۔ یہ کام سیاسی قوتوں کو کرنا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں نئے بلدیاتی نظام کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے ، جسے ایک ہفتے کے اندر نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرنی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے مرحلے میں یہ نیا نظام پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ان دونوں صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں اور بلدیاتی امور صوبائی معاملہ ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو نیا نظام نافذ کرنے کے لئے قائل کیا جائے گا ۔ بلدیاتی نظام جو سندھ میں ہے وہ موثر اور عوامی مفاد میں نہیں ہے۔

جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دوسرے کی ہربات کی مخالفت کی جائے ۔ جو بات عوام کے مفاد میں ہو ، وہ تسلیم کرنی چاہئے۔ ہمارا ملک اب اختلاف برائے اختلاف کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور شہری منصوبہ بندی بلدیاتی اداروں کا کام ہے ۔وفاقی حکومتیں صوبوں کے اندر یا بین الصوبائی منصوبہ بندی کی ذمہ دار ہوتی ہیں سیاسی قوتوں کے درمیان مقامی حکومتوں کے معاملے پر جاری کشمکش کا اب خاتمہ ہونا چاہئے ۔ اب سیاسی قوتیں خود بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کو زیادہ بااختیار بنائیں اور انہیں ’’ اون ‘‘ کریں۔

تازہ ترین