• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر میں ایک ایک فرد کا نام لے کر کہوں کہ جو لوگ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے میڈیا پر لگائی جانے والی حالیہ پابندی کو نہیں مانتے یا اس کی مخالفت کرتے ہیں تووہ بے غیرت ہیں، وہ مکار ہیں، وہ منحوس ہیں، وہ جھوٹے ہیں، وہ ناسور ہیں، وہ فتنہ ہیں، وہ ڈھیٹ ہیں اور وہ احسان فراموش ہیں تو کیا ایسی بکواس کی میڈیا میں اجازت کوئی ذی شعور انسان، کوئی تہذیب، کوئی معاشرہ دے سکتا ہے۔ اس طرح کی فضولیات کو کیسے آزادی صحافت سے جوڑا جا سکتا ہے؟؟؟ یہ گالم گلوچ کس طرح آزادی رائے کے زمرے میں آسکتاہے؟؟؟؟اسلام دشمن اور پاکستان دشمن نام نہاد عالمی تنظیمیں انسانی حقوق اور آزادی رائے کے نام پر پاکستان اور اس کے اداروں کو تو ہمیشہ نشانہ بناتے ہی رہے ہیں اور وہ ایسا کرتے بھی رہیں گے مگر افسوس اس امر پر ہے جب ہمارے درمیان موجود کچھ صحافی، سیاسی اور وکیل ہنما مختلف حیلے بہانوں سے اُس گالم گلوچ کوجائز قرار دیں گے جس کا نشانہ پاکستان کے چیف جسٹس اور اعلٰی عدلیہ کے دوسرے جج حضرات کو بنایا جاتا رہا۔کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ اُس خرافات اور بیہودہ گوئی جس کا میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا کا
چیف جسٹس کے خلاف چند ٹی وی چینلز میں بار بار کھلے عام اظہار کیا گیا۔ عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف گالم گلوچ کرنے والے شخص کو بار بار ٹی وی شوز میں بلایا گیا اور گالیوں کو سنسر کرنا تو درکنار repeat پروگرام میں بھی دوبارہ چلایا گیا۔ پیمرا بھی خاموش تماشائی بنا رہا۔ یہ گالم گلوچ کا سلسلہ ایسا چلا کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ آئین، قانون اور اخلاقیات کی میڈیا میں اس طرح دھجیاں اڑائی جاتی رہیں کہ دیکھنے والے آزادی رائے کی ان حدوں کو دیکھ کر حیران وپریشان ہو گئے۔ جب میڈیا والوں نے خود
سی ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا اور جب پیمرا بھی اپنا فرض ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا تو دو وکلاء حضرات جناب اکرم شیخ اور جناب ندیم احمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس کا مقصد اُس گالم گلوچ اور مہم جوئی کو روکنا تھا جس کا مقصد چیف جسٹس کو بدنام کرنا تھا۔ اس درخواست میں میری اُس خبر کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں عدلیہ مخالف قوتوں کی طرف سے میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ایک اور ”دھماکا“ کرنے کی سازش کی جا رہی تھی۔ اس درخواست کے نتیجہ میں اسلام آبادہائی کورٹ نے پیمرا کو یہ حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ نجی ٹی وی چینلز میں ایسا کوئی پروگرام نہ چلے جس میں اعلٰی عدلیہ کے ججوں اور بالخصوص چیف جسٹس کے خلاف بد زبانی کی جائے۔ اپنے حکم نامہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی بھی جج کے خلاف کسی بھی فرد کے پاس کوئی شکایت ہے تو آئین اور قانون کے مطابق ایسی شکایت اور مواد کو سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا یا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم میں میڈیا پر کسی قسم کی پابندی کی بات نہ کی گئی بلکہ اس کا واضح مقصد عدلیہ کے خلاف گالم گلوچ کو روکنا تھا۔ اس فیصلہ کو عمومی طور پر سراہا گیا مگر وکلاء، صحافیوں اور سیاستدانوں میں موجود ایک طبقے نے ایک ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جیسے یہ میڈیا پر بہت بڑا ظلم ہو گیا ہو۔ کسی نے فیصلے کو بغیر پڑھے عدلیہ کے خلاف اپنا غصہ نکالنا شروع کر دیا تو کچھ نے کسی طاقتور کاروباری شخصیت کی ایماء پرعدلیہ کے اس فیصلہ کو آزادی صحافت پر شدید حملہ قرار دے دیا۔ کچھ ”قابل“ اپنی ”قابلیت“ میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ مگر اس سب کے باوجود جب اس تمام پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہ ہوا تو پھرکچھ عالمی ”دوستوں“ کی ”دوستیوں“ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عدلیہ کو بدنام کیا جائے۔ اُس عدلیہ کو جو آج کے پاکستان کی واحد امید ہے۔ عدلیہ مخالفیں کا کیا کیا ایجنڈا ہے اور کون کون کس کس مقصد کے لیے عدلیہ کو گالیاں دلوانا چاہتا ہے یہ تو الگ بحث ہے مگر یہاں میڈیا کے اس گھناونے کردار پر یہ بنیادی سوال اُٹھتا ہے کہ اگر پیمرا اور دوسرے حکومتی ادارے اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے کسی ایسی سازش کا حصہ بنتے ہیں جس کا مقصد اعلٰی عدلیہ کو کمزور کرنا ہے تو کیا میڈیا کی اپنی کوئی ذمہ داری نہیں؟؟؟ کیا پیسہ اور ریٹنگ کے لیے سب کچھ کرنا جائز ہے چاہے وہ اسلام، پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی روک ٹوک نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ میڈیا کو مادر پدر آزادی حاصل ہے اور وہ جسے چاہے اُس کی پگڑی اُچھالے، جس کو چاہے ٹاک شوز میں بٹھا کر کسی دوسرے کو گالیاں دلوا دے۔ میڈیا میں جس طرح کی غلیظ زبان چیف جسٹس کے خلاف استعمال کی گئی کیا ایسی زبان کبھی میڈیا نے کسی عام شہری ،وزیر مشیر یا حکومتی اہلکار کے لیے بھی استعمال کرنے کی اجازت دی؟؟؟ اگر کوئی مثال ہے تو مجھے ضروربتائیں۔
تازہ ترین