• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1984ء میں دہلی میں صرف دو گھنٹے کے لیے راقم کی کامریڈ سوم ناتھ چتر جی سے ملاقات ہوئی تھی۔ سوم جی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں، لوک سبھا کے واحد کمیونسٹ اسپیکر تھے، جن کا13اگست 2018ء کو کولکتہ میں دیہانت ہوا۔ 1984ء کے موسمِ گرما میں راقم’’ اجے بھون‘‘ میں مقیم تھا، جو انڈین کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہے اور 1951ء سے 1962ء تک آئی سی پی کے سربراہ رہنے والے اجے کُمار گھوش کے نام سے منسوب ہے۔ دہلی میں راقم کی مہمان نوازی نور ظہیر (سجّاد ظہیر کی صاحب زادی) اور منظور سعید نے کی۔ خیال رہے کہ منظور سعید، منصور سعید کے بھائی تھے، جو کراچی میں اسلم اظہر کے ساتھ مل کر ’’دستک تھیٹر گروپ‘‘ چلایا کرتے تھے اور منصور سعید کی صاحب زادی، ثانیہ سعید اس وقت پاکستان کی معرو ف اداکارہ ہیں۔ دہلی میں قیام کے دوران منظور سعید نے راقم کو صفدر ہاشمی سے متعارف کروایا، جو ترقّی پسند سیاسی کارکُن ہونے کے علاوہ ڈراما نگار اور اداکار بھی تھے۔ چُوں کہ تب راقم پاکستان کی طلبہ سیاست میں بھی تھوڑا بہت حصّہ لیتا تھا، لہٰذا اس کی خواہش تھی کہ دہلی کے کچھ ترقّی پسند سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں سے یہ جاننے کے لیے ملاقات کی جائے کہ آخر بھارت کے کمیونسٹ گروپس یکساں نظریات ہونے کے باوجود منقسم کیوں ہیں۔

صفدر ہاشمی، راقم کو پہلے سیتا رام یچوری کے پاس لے گئے، جو اُس وقت ’’اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا‘‘ (ایس ایف آئی) کے صدر تھے اور پھر سوم ناتھ چترجی سے ملاقات کی، جو لوک سبھا میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کے رُکن تھے۔ اس واقعے کے صرف 5برس بعد 1989ء میں دہلی کے قریب دائیں بازو کے انتہا پسند وں نے صفدر ہاشمی کو قتل کر دیا، جب کہ سیتا رام یچوری آج کل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کے سربراہ ہیں۔ واضح رہے کہ اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کا اسٹوڈنٹ وِنگ ہے۔

راقم کو سوم ناتھ چترجی سے ملاقات کا احوال، ان کی بھاری بھر کم آواز اور ٹوٹی پھوٹی ہندی آج تک یاد ہے۔ سوم جی اس وقت پاکستان کی سیاسی صورتِ حال سے پوری طرح باخبر اور صدرِ پاکستان، جنرل ضیاء الحق کے اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعووں سے پریشان تھے۔ سوم جی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہب کو جس قدر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، اسی قدر بھارت میں ہندو بنیاد پرستوں کے بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے مطالبے میں شدّت آتی جائے گی۔ نیز، پاکستان میں اقلیتوں کو جتنا دبایا جائے گا، اس سے زیادہ شدّت سے بھارت میں اقلیتوں کو کُچلا جائے گا اور تاریخ نے ثابت کر دکھایا کہ سوم جی کی وہ پیش گوئی دُرست تھی۔ملاقات کے دوران راقم کو اُس وقت بڑی حیرت ہوئی کہ جب سوم جی نے بتایا کہ خود اُن کا خاندان بھی کٹّر مہاسبھائی تھا اور ان کے والد نے انہیں بھی ہندو مہاسبھا کا رُکن بنادیا تھا، مگر پھر جیوتی باسو(1914-2010)کے زیرِ اثر آنے کے بعد سوم جی کے والد سیکولر سیاست کی جانب راغب ہوئے۔ بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ سوم جی ایک علم دوست شخص ہیں ۔ وہ راقم سے پاکستان کی سیاست کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم، سوم ناتھ چتر جی سے متعلق مزید بات چیت کرنے سے قبل بھارت میں کمیونسٹ سیاست کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام 1925ء میں عمل میں آیا اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری، پورن چند جوشی بنے۔ پورن چند جوشی 1947ء تک سی پی آئی کے سربراہ رہے ۔ ان کی قیادت میں پارٹی نے مسلم لیگ کی بھرپور حمایت کی اور اس کے، مسلمانوں کے لیے ایک الگ مُلک کے قیام کے مطالبے کو بھی ایک قومی آزادی کی تحریک کے طور پر تسلیم کیا۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نظریاتی بُحران سے گزری، جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ آیا انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت کی جائے یا مخالفت۔ اس موقعے پر جو رہنما اور کارکُن کانگریس کے مخالف تھے، انہوں نے پی سی جوشی کو پارٹی کی قیادت سے ہٹا کر 1948ء میں بی ٹی رنا دیوے کو پارٹی کا نیا سربراہ بنا دیا۔ 1951ء تک بھارتی کمیونسٹس نے سخت گیر پالیسی اپنائی اور کئی علاقوں میں مسلّح جدوجہد بھی کی، جن میں تلنگانہ، تری پورا اور کیرالا سرِفہرست ہے۔ بھارتی کمیونسٹس کی اس پالیسی کو سوویت کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما ژدانوف (Zhdanov) کی آشیر باد حاصل تھی۔ نتیجتاً نہرو حکومت نے کمیونسٹ رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی اور بہت سے ترقّی پسند کارکن، رہنما اور حتیٰ کہ قلم کار بھی دھر لیے گئے۔ یہ غالباً واحد موقع تھا کہ جب ہندو مہاسبھا نے بھارتی کمیونسٹس کی حمایت کی اور تمام ترقّی پسند کارکنوں اور رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ باہمی تعاون کے اس مختصر عرصے میں سوم جی کے والد کو جیوتی باسو نے خاصا متاثر کیا۔ جیوتی باسو ایک کمیونسٹ بنگالی تھے، جو 1977ء سے 2000ء تک مغربی بنگال کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔

ماسکو میں ژدانوف کی موت کے بعد سوویت یونین نے کانگریس اور نہرو کے لیے اپنی پالیسی نرم کر دی اور 1951ء میں غالباً سوویت کمیونسٹ پارٹی کی ایما پر بھارتی کمیونسٹس بھی تبدیل ہو گئے اور انہوں نے اجے کُمار گھوش کو اپنی پارٹی کا سربراہ بنا دیا، جنہوں نے مسلّح جدوجہد کی بہ جائے میانہ روی اور آئین میں رہتے ہوئے سیاست کی۔ 1957ء میں انڈین کمیونسٹ پارٹی نے کیرالا میں پہلی صوبائی حکومت بنائی، جسے صرف دو سال بعد ہی نہرو کی مرکزی حکومت نے بر طرف کر دیا۔ 1960ء کے آتے آتے دُنیا بَھر میں کمیونسٹ سیاست ایک بڑے بُحران کا شکار ہو گئی، جس کا سبب چین اور سوویت یونین کے مابین پائے جانے والے تضادات تھے۔ کامریڈ گھوش کی موت کے بعد انڈین کمیونسٹ پارٹی میں چیئرمین کا ایک نیا عُہدہ تخلیق کیا گیا اور بمبئی کے کامریڈ ایس اے ڈانگے کو پارٹی کا چیئرمین اور کیرالا سے تعلق رکھنے والے نمبو در سی پد کو نیا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔

1964ء میں سی پی آئی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ الگ ہونے والا دھڑا خود کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کہلوانے لگا اور اس نے کامریڈ سندرّیا کو اپنا سربراہ بنایا، جو 1978ء تک اس عُہدے پر فائز رہے اور حقیقی سی پی آئی نے راجیش ور رائو کو اپنا سیکرٹری جنرل بنایا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ تب سی پی آئی اور سی پی ائی (ایم) دونوں کے سربراہان ہی ’’تلنگانہ کسان تحریک‘‘ میں سرگرم کردار ادا کر چُکے تھے۔ اس موقعے پر چُوں کہ جیوتی باسو نے سی پی آئی (ایم) کا ساتھ دیا، لہٰذا سوم ناتھ چتر جی نے بھی1968ء میں اسی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں، 1971ء میں سوم جی نے پہلا انتخاب لڑا اور لوک سبھا کے رُکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد وہ 10مرتبہ انتخابات جیت کر لوگ سبھا کے رُکن منتخب ہوئے۔

1970ء کے عشرے میں سی پی آئی نے اندرا گاندھی کی حمایت کی، جب کہ سی پی آئی (ایم) نے مخالفت۔ 1984ء میں جب راقم سوم جی سے ملا، تو اس وقت وہ تین مرتبہ لوک سبھا کے رُکن منتخب ہو چُکے تھے اور 1985ء میں ہونے والے عام انتخاب کی تیاریاں کر رہے تھے۔ راقم جس روز دہلی سے روانہ ہوا، اُس کے اگلے دِن دہلی میں اندرا گاندھی کو اُن کے سِکھ محافظوں نے قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعدپورے دہلی میں فسادات پُھوٹ پڑے اور چُن چُن کر سِکھوں کو قتل کیا گیا اور اُن کی اِملاک کو آگ لگا دی گئی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں کانگریس کو ہم دردی کے اتنے ووٹ ملے کہ وہ بھاری اکثریت سے جیت گئی اور ان انتخابات میں سوم ناتھ چتر جی بھی ایک نو وارد خاتون امیدوار کے ہاتھوں شکست کھا گئے، جن کا نام تھا، ممتا بنر جی۔ تب اُن کی عُمر بہ مشکل 30برس ہو گی۔ تاہم، سوم جی نے اگلے ہی برس ایک اور نشست پر ہونے والا ضمنی انتخاب جیت لیا اور ایک مرتبہ پھر لوک سبھا پہنچ گئے۔ 1990ء کے عشرے میں بھارت کی کمیونسٹ سیاست میں دو اہم واقعات رُونما ہوئے۔ اوّل، نمبو درسی، جو 1978ء سے سی پی آئی (ایم) کے سربراہ چلے آ رہے تھے، مستعفی ہو گئے اور ان کی جگہ ہر کشن سنگھ سرجیت کو سربراہ بنایا گیا اور دوم سی پی آئی کے سربراہ، راجیش وررائو نے بھی استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ اندر جیت گپتا نے لے لی۔

1996ء کے عام انتخابات میں بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری، مگر حکومت نہ بنا سکی اور حزبِ اختلاف کے متحدہ محاذ نے سی پی آئی (ایم) کے جیوتی باسو کو وزیرِ اعظم بنانے پر رضا مندی ظاہر کر دی، مگر ایک تاریخی غلطی کرتے ہوئے سی پی آئی (ایم) نے ہر کشن سنگھ سرجیت کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ وہ حکومت نہیں بنائے گی، بلکہ حکومت سے باہر رہ کر متحدہ محاذ کی حمایت کرے گی۔ یہ وہ واحد موقع تھا کہ جب ایک کمیونسٹ رہنما بھارت کا وزیرِ اعظم منتخب ہو سکتا تھا، مگر سی پی آئی (ایم) نے اسے گنوا دیا۔ سوم ناتھ چترجی اور جیوتی باسو دونوں ہی نے اس فیصلے پر تنقید کی، مگر پارٹی کے فیصلے سے انحراف نہیں کیا۔ دوسری جانب سی پی آئی نے حکومت میں شمولیت اختیار کی اور اس کے رہنما، اندر جیت گپتا بھارت کے واحد کمیونسٹ وزیرِ داخلہ بنے اور دو سال تک اس عُہدے پر فائز رہے۔ جب کامریڈ گپتا بھارت کے مرکزی وزیرِ داخلہ بن گئے، تو اے بی بردھن کو سی پی آئی کا نیا جنرل سیکریٹری بنایا گیا، جو 2012ء تک اس عُہدے پر فائز رہے۔

سوم ناتھ چترجی 2004ء میں لوک سبھا کے ایسے پہلے اور آخری اسپیکر منتخب ہوئے کہ جنہیں سی پی آئی (ایم) کے 43ارکانِ پارلیمان کے علاوہ متحدہ ترقّی پسند اتحاد (یو پی اے) کی حمایت بھی حاصل تھی۔ کانگریس کی قیادت میں بننے والے اس حکومتی اتحاد نے سوم جی کو بہت عزّت دی، مگر سی پی آئی (ایم) کو وہ عزّت راس نہ آئی۔ 2008ء میں سی پی آئی (ایم) نے ایک اور تاریخی غلطی کی اور سوم جی سے اسپیکر شپ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا کہ وہ حکومت کی حمایت واپس لے رہی تھی۔ تاہم، سوم جی نے یہ کہہ کر مستعفی ہونے سے انکار کر دیا کہ اسپیکر کا عُہدہ پارٹی سیاست سے بالاتر ہوتا ہے۔ نتیجتاً، سی پی آئی (ایم) نے پرکاش کرت کی قیادت میں سوم جی کی 40سالہ کمیونسٹ سیاست کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ 2009ء میں اسپیکر کے عُہدے کی مُدّت ختم ہونے کے بعد سوم جی نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔ جب سوم ناتھ چتر جی اس دُنیا سے سدھارے، تو سی پی آئی (ایم) نے اُن کے جسدِ خاکی کو پارٹی پرچم میں لپیٹنے کی کوشش کی، مگر سوم جی کے خاندان نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اُن کے کریا کرم کے تمام تر انتظامات کی نگرانی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ، ممتا بنر جی نے کی، جنہوں نے 1985ء کے عام انتخابات میں سوم جی کو شکست دی تھی۔ یہ ہوتی ہیں، جمہوری روایات اور ان کی خُوب صُورتی۔

تازہ ترین